اسلام آباد (چوہدری اعظم گِل) سپریم کورٹ نے کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب کو قرار دیدیا۔ چیف جسٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ نیب کے تفتیشی افسران میں صلاحیت کا فقدان ہے، قانونی پہلوئوں کا تفتیشی افسران کو پتہ نہیں ہوتا۔ جسٹس یحیٰ خان آفریدی نے کہا تفتیش مکمل ہونے سے پہلے گرفتار کرنے کی کیا منطق ہے؟۔ اگر ملزم تفتیش میں جواب نہ دے تو گرفتاری سمجھ آتی ہے، بلاوجہ گرفتاریوں سے عدالتوں پر بوجھ پڑتا ہے۔ سپریم کورٹ میں لاکھڑا پاور پلانٹ تعمیر میں بے ضابطگیوں کے کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی تین رکنی بینچ نے کی۔ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا نیب کے تفتیشی افسران مین صلاحیت کا فقدان ہے، قانونی پہلوئوں کا تفتیشی افسران کو پتہ نہیں ہوتا، تحقیقات سالوں چلتی رہتی ہے، لوگ سالوں تک نیب میں پھنس جاتے ہیں،30 دن میں فیصلے کی بجائے لوگ تیس سال تک پڑے رہتے ہیں۔ نیب کے ریفرنس کی بنیاد ہی غلط ہوتی ہے، ریفرنس میں کوالٹی نہیں ہوتی۔ ریفرنس میں پچاس پچاس گواہ نیب بنا لیے جاتے ہیں۔ کوالٹی کا ایک گواہ ہی کافی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا پراسیکیوٹر جنرل نیب آئے ہیں؟ پراسیکیوٹر صاحب آپ نے تمام الزام عدالتوں پر لگا دیا۔ پراسیکیوٹر جنرل نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا ایسا ہی ہے، ہمیں کوئی معاونت نہیں ملتی، نیب والوں کو حقائق اور لیگل پہلوئوں کا معلوم نہیں ہوتا، تحقیقات انکوائری سالوں کرتے رہتے ہیں، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا چیئرمین نیب اور پراسیکیوٹرز کو دھمکیاں مل رہی ہیں، راولپنڈی میں ایک پراسیکیوٹر پر فائرنگ کی گئی، راولپنڈی پولیس تو فائرنگ کا مقدمہ ہی درج نہیں کر رہی تھی، نہ پوچھیں فائرنگ کا مقدمہ درج کرانے کیلئے کس کو بیچ میں ڈالنا پڑا، حکومت ہمیں فنڈز دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے، ملزمان کے وکلا قد آور اور بھاری بھرکم فیس والے ہوتے، نیب پراسیکیوٹرز کی تنخواہیں اور مراعات انتہائی کم ہیں، فنڈز ملیں تو اچھے پراسیکیوٹرز بھرتی کرینگے۔ جس پر جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا فنڈز انتظامی معاملہ ہے عدالت کچھ نہیں کر سکتی، پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا سب ہمارے ہی خلاف ہیں صرف سپریم کورٹ سے حوصلہ ملتا۔ چیف جسٹس نے کہا نیب والے کچے پکے کیس بنا کر عدالتوں کو بھیج دیتے ہیں۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا تفتیشی افسران کی نیویارک اور برٹش پولیس سے تربیت کروا رہے ہیں، ان حالات میں بھی نیب 61فیصد ملزمان کو سزا دلوا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا نئی عدالتوں کے قیام میں 2.86 ارب کا مسئلہ چوزے کی خوراک کے برابر ہے۔ نیب مقدمات جیتے تو ہزار ارب سے زائد کی ریکوری ہو سکتی۔ دو ارب تو نیب کے ایک کیس سے ہی نکل آئیں گے۔ حکومت کے پاس اب زیادہ وقت نہیں۔ بیس بیس سال سے مقدمات احتساب عدالتوں میں پڑے ہیں۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا تفتیش مکمل ہونے سے پہلے گرفتار کرنے کی کیا منطق ہے؟ اگر ملزم تفتیش میں جواب نہ دے تو گرفتاری سمجھ آتی ہے، بلاوجہ گرفتاریوں سے عدالتوں پر بوجھ پڑتا ہے، جس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا تفتیش مکمل ہونے سے پہلے گرفتاری کا معاملہ چیئرمین کے نوٹس میں لاؤں گا۔ حکومت اپوزیشن میڈیا سب ہی نیب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ نیب تفتیشی افسران میں اہلیت اور صلاحیت نہیں، چیئرمین نیب تفتیشی ٹیم کو تبدیل کریں۔ عدالت کا حکم میں کہنا ہے کہ نیب میں تفتیش کا معیار جانچنے کیلئے کوئی نظام نہیں۔ نقائص سے بھرپور تفتیشی رپورٹ ریفرنس میں تبدیل کر دی جاتی ہے۔ ریفرنس دائر کرنے کے بعد نیب اپنی غلطیاں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے؟ غلطیوں سے بھرپور ریفرنس پر عدالتوں کو فیصلہ کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں۔ کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا آغاز ہی نیب آفس سے ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کابینہ سے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی منظوری لینے کی ہدایت کر تے ہوئے کہا کہ سیکرٹری قانون کابینہ سے منظوری لیکر ایک ماہ میں ججز تعیناتی کا عمل شروع کریں۔ نئی احتساب عدالتوں کیلئے انفراسٹرکچر بھی بنایا جائے۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ نیب کے ایس او پیز رولز کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ رولز نیب آرڈیننس کی سیکشن 34 کے تحت بنائے جائیں۔ نیب کو ایک ماہ میں رول بنا کر پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ مزید سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی گئی۔ دوسری جانب احتساب عدالتوں میں ججز کی تعیناتی اور نئی عدالتیں بنانے سے متعلق وزات قانون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈز کی کمی کے باعث فوری طور پر 120 نئی عدالتیں قائم نہیں کی جا سکتی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان عدالتوں کے لئے قانونی اور مالی ضروریات پوری کرنا ضروری ہیں۔ 120 عدالتوں قیام کے لئے سالانہ 2ارب 86کروڑ کی ضرورت ہے۔ تاہم 120احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لئے مشاورت شروع کردی گئی ہے۔ رپورٹ میں وزارت قانون نے ملک بھر کی احتساب عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تفصیل سپریم کورٹ کو بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر کی 24احتساب عدالتوں میں 975 مقدمات زیر التوا اور تمام عدالتیں فعال ہیں جن میں سے اسلام آباد کی تین احتساب عدالتوں میں 110مقدمات زیر التوا، لاہور کی پانچ عدالتوں میں 213مقدمات ۔ راولپنڈی کی تین عدالتوں میں 18 مقدمات زیر التوا ہیں۔ ملتان کی ایک عدالت میں 80، سکھر میں 56 اور کوئٹہ کی دو عدالتوں میں 108مقدمات زیر التوا ہیں۔ کراچی کی پانچ عدالتوں میں 188اور حیدر آباد کی عدالت میں 38مقدمات زیر التوا ہیں۔ جبکہ پشاور کی چار احتساب عدالتوں میں 164مقدمات زیر التوا ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے مطابق پانچ احتساب عدالتوں میں ججوں کی خالی آسامیاں پر کرنے کے لئے سمری ارسال کر دی گئی ہے۔