فرانسیسی صدرکا ترکی پر یونان،قبرص کی آبی حدود میں’دراندازی‘ پریورپی پابندیوں کا مطالبہ

فرانسیسی صدر عمانوایل ماکروں نے یورپی یونین سے ترکی کے خلاف یونان اور قبرص کے پانیوں میں ’دراندازی‘ پر پابندیاں عایدکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔انھوں نے تنظیم پر زوردیا ہے کہ وہ لیبیا میں جاری بحران پر بھی کوئی کردار ادا کرے۔ترکی اور یونان کے درمیان قدرتی گیس کے ذخائر کے حقِ ملکیت پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور وہ دونوں ہی بحر متوسط میں تیل اور گیس کے ذخائر کے دعوے دار ہیں۔ ترکی نے گذشتہ منگل کو بحیرہ ایجین کے جنوب مشرقی علاقے میں ڈرلنگ کے لیے ایک جہاز بھیجا تھا اور کہا کہ وہ یونانی جزیرے کاسٹیلوریزو کے جنوب میں تیل اور گیس نکالنے کے لیے کھدائی کا کام کرے گا۔فرانسیسی صدرعمانوایل ماکروں جمعرات کو اپنے قبرصی ہم منصب نیکوس اناستاسیادیس کے ساتھ ایلزی محل، پیرس میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’’میں ترکی کی جانب سے قبرص اور یونان کی خود مختاری کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر ان دونوں ممالک کے ساتھ کھڑا ہوں۔ یہ بالکل ناقابل قبول ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کی آبی حدود کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اور انھیں ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’’ جو یہ لوگ کام کررہے ہیں، ان کے خلاف پابندیاں عاید کی جانا چاہییں۔‘‘ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر اس معاملے میں یورپی یونین کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرتی ہے تو یہ ایک سنگین غلطی ہوگی۔‘‘

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مشیر اعلیٰ نے ابراہیم کلین نے برسلز میں جمعرات کو ایک تھنک ٹینک کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پابندیوں کی دھمکیوں کی زبان سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور اس کا ترکی کی خود مختاری یا قومی مفادات کے حصول کے لیے عزم پر بھی کچھ اثر نہیں ہوگا۔‘‘

واضح رہے کہ 13 جولائی کو یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے ترکی کے خلاف بحر متوسط کے مشرقی حصے میں ڈرلنگ کی کارروائی پر پابندیوں کے موجودہ فریم ورک کے تحت اضافی فہرستیں تیار کرنے سے اتفاق کیا تھا۔تنظیم سے یونانی قبرص نے ترکی کے خلاف پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فرانسیسی صدر ماکروں گذشتہ چند ماہ سے ترکی کو لیبیا میں فوجی مداخلت پر بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔انھوں نے آج کی پریس کانفرنس میں ایک مرتبہ پھر یورپی یونین سے ترکی کے خلاف لیبیا کے معاملے پر بھی پابندیاں عاید کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ لیبیا میں جاری تنازع کے سیاسی حل اور جنگ بندی کے لیے پابندیوں کا نفاذ ضروری ہے۔ تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کس کس ملک پر پابندیاں عاید کی جانا چاہییں۔

اس وقت ترکی اور روس ہی لیبیا میں جاری تنازع کے دو بڑے کردار ہیں اور وہ دونوں وہاں متحارب فریقوں کی عسکری اور سیاسی حمایت کررہے ہیں۔روس مشرقی لیبیا سے تعلق رکھنے والے فوجی کمانڈر جنرل خلیفہ حفتر کے زیرقیادت لیبی قومی فوج ( ایل این اے) کی حمایت کررہا ہے جبکہ ترکی طرابلس میں وزیراعظم فائز السراج کے زیر قیادت قومی اتحاد کی حکومت (جی این اے) کی حمایت کررہا ہے اور اس کی بدولت ہی جی این اے کی فورسز خلیفہ حفتر کا طرابلس پر قبضے کے لیے حملہ پسپا کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

ترکی ماضی میں فرانس پر خلیفہ حفتر کی سیاسی حمایت کا الزام عاید کرچکا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ فرانس نے ماضی میں لیبی قومی فوج کو جنگجوؤں کے خلاف لڑائی کے لیے فوجی امداد مہیا کی تھی لیکن پیرس حکومت اس الزام کی تردید کرچکی ہے۔

ای پیپر دی نیشن