اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں 

ہر زندہ اورغیرت مند قوم کو اپنی ثقافت عزیز ہوتی ہے اور وہ اسے کسی قیمت پر بھی مٹتے ہوئے یا برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ چاہے اس کیلئے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو حصول پاکستان کا باعث بنا اگر ہمارے دلوں میں اپنی ثقافت کی محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کی تہذیب میں جذب ہونے پر تیار ہوتے اور اپنی انفرادیت کو قائم کرنے کیلئے ان سب مصائب کا مقابلہ کبھی نہ کرتے۔ جو ہمیں پاکستان کے حصول کی راہ میں پیش آئے۔ یہ نادانی نہیں تو اور کیا ہے؟ جب ہم نے اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کا حق نہ صرف بے شمار جانیں قربان کرکے بلکہ ہزاروں بہنوں، بیٹیوں کو اغیار کے پنجے میں گرفتار کرا کے کہ اب تک وہ غلامی و ذلت کی زندگی گزار رہی ہیں حاصل کر لیا۔ آج اسے اپنے ہی ہاتھوں سے گنوا رہے ہیں۔ یہ ہے مقام عبرت کہ وہ قوم جو اس دعوے کے ساتھ اٹھی تھی کہ اسے اپنی تہذیب و ثقافت اتنی عزیز ہے کہ وہ اغیار کے ساتھ شرکت کی زندگی کیلئے کسی قیمت پر آمادہ نہیں۔ وہ اسی ثقافت کو بے سوچے سمجھے مٹا رہی ہے۔ وطن عزیز کو وجود میں آئے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن ہم ابھی تک اپنی قومی زبان اردو کو فروغ نہیں دے سکے بلکہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہیں۔ ہمارے دل میں اپنی کسی روایت سے وابستگی اور اپنی میراث کے کسی حصہ سے لگائو کا شائبہ بھی نہیں رہا۔ ہمارے اس احساس کمتری کا حال یہ ہے کہ ہمارے مکانوں ، محلوں ، راستوں ، اداروں ، کارخانوں حتیٰ کہ روزمرہ کے استعمال کی اشیاء تک کے نام غیرملکی ہیں۔ ہم نے بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے دیگر فرامین کی طرح اس فرمان کو بھی طاق نسیان پر رکھ دیا ہے کہ: ’’میں آپ کو صاف طور پر بتا دوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور کوئی دوسری نہیں۔ جو کوئی آپ کو غلط راستے پر ڈالے وہ درحقیقت پاکستان کا دشمن ہے۔‘‘
بقول ڈاکٹر اللہ رکھا ساغر کمبوہ ہم من حیث القوم اپنی انگریزی پسندی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ شاید انگریز بہادر خود بھی اپنے آپ کو اتنا پسند نہ ہو جتناکہ ہمیں پسند ہے۔ ہمارے والدین کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ انکے بچے انگریزی زبان کو بے تکلف بول سکیں۔ چاہے وہ اپنی مادری یا قومی زبان کے بولنے سے یکسر قاصر ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمیں اپنی ثقافت مقدم اور عزیز کیوں نہیں ہے۔ آج ہمارے بچے ان کتابوں کے ناموں سے بھی واقف نہیں ہیں جو کبھی ہمارے لیے مشعل راہ تھیں۔ کبھی ہم نے اس پہلو پر بھی غور کیا ہے کہ اپنی ثقافت سے دوری کے نتائج کیا نکلیں گے۔ کچھ تو سامنے آ رہے ہیں جو قوم دوسروں کی شرکت کی بھی روادار نہ تھی وہ اب اغیارکی بھیک پر قانع ہے۔جس کے لیے حضرت قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ غریبی کے ساتھ آزادی اور عزت غلامی کی خوشحالی سے بہتر ہے۔ 
اگر دوسروں کی تہذیب و تمدن کو اختیار کر کے یا تنگ قمیصوں، چست پتلونوں اور جسم کی ساخت کی نمائش سے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں جگہ مل جاتی تو پھرکیا تھا۔ نہ کتب خانے کی ضرورت تھی ، نہ کسی جامعہ کی ، نہ کسی دانش کدہ کی ، نہ کسی حقیقی ادارہ کی ، نہ مطالعہ اور جستجو کی۔ اگر دوسروں کی زبان پر ہی ترقی کا انحصار ہوتا تو جاپان علوم و فنون میںہم سے بہت پیچھے ہوتا اور علمی دنیامیں آج اسے وہ فوقیت حاصل نہ ہوتی جو یورپ و امریکہ میں بھی باعث رشک ہے۔ آخر کیا دیوانگی ہے جو ہم نے اپنے اوپر طاری کر لی ہے کہ ہم اپنی زبان ، اپنی تہذیب کو پس پشت ڈال کر انگریزی زبان اور تہذیب و تمدن کی اندھا دھند پیروی کر رہے ہیں۔ 
بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی: 
’’اگر اپنی ثقافت اور معتقدات وایمان کو بیچ کر ہمیں دنیاوی فلاح ہی نظر آتی تو شاید بعض دلوں کے زخموں پر کچھ مرہم لگ جاتا اگرچہ میں خود تو ان دیوانوں میں سے ہوں جو لاکھوں دولتوں اور کروڑوں آسودگیوں کو ایمان کی قیمت نہیں سمجھتے بلکہ اگر اس سودے میں ساری دنیا بھی ہاتھ آ جائے تو اسے خسارہ کی تجارت ہی شمار کریں گے اگر مادی ترقی کیلئے ثقافت کے کچھ پہلو قربان کرنے پڑتے تو بعض رحجانات کا سبب سمجھ میں آتا لیکن افسوس تو یہ ہے کہ تاحال خوشحالی کا دروازہ کھلتا بھی نظر نہیں آتا۔‘‘ 
سائنسی علوم کی تعلیم کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ یہ انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں کامیابی سے نہیں دی جا سکتی حالانکہ بقول ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی:
’’غیرملکی زبان کی وساطت سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ عمیق مشکل سے حاصل ہو سکتا ہے اس لیے کہ یہ قدرت ہم میں سے بہت کم کونصیب ہوتی ہے کہ اپنی زبان کی طرح کسی غیر زبان کو بھی ایسا اپنا لیں کہ اس میں خیالات کے افہام و تفہیم میں ہمیں دقت نہ ہو۔ طبیعی علوم کو عوام تک پہنچانے کے لیے تو اپنی زبان اختیار کرنے کے علاوہ چارہ ہی نہیں…لہٰذا طبیعی علوم کے ماہرین اگر اس قوم میں ان علوم کا ذوق پیداکرنا چاہتے ہیں توان کو اپنی زبان میں منتقل کریں۔ اپنی زبان میں سوچیں اور اپنی زبان میں لکھیں ، اپنی زبان میں سمجھیں اور اپنی زبان میں سمجھائیں۔‘‘ 
تاریخ شاہد ہے کہ خود انگلستان میں ترقی کی ابتدا اس دن سے ہوئی جس دن سے انجیل کا انگریزی ترجمہ شائع ہوا۔ اگر چھوٹی سی کتاب کے ترجمے سے اتنی روشنی پھیل گئی تو اس کا اندازہ لگائیے کہ اگر پورے علوم اپنی قومی زبان اردو میں منتقل ہو جائیں تو اس سے کتنے مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ 
الغرض یہ کہ اگر ہم اپنی ثقافت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور دنیا کی زندہ اور باشعور قوموں کی صف میں اپنا نام رقم کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی زندگی کے ہر شعبے میں دنیا کی دوسری باشعور قوموں کی طرح اپنی قومی زبان اردو کو عملی طور پر نافذ کرنا ہو گا اور یقین جانیے کہ ہماری بقا اور ہم آہنگی کا راز اسی میں مضمر ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...