بطور رپورٹر ایوان  اقتدار کی سرگرمیاں ان کی ٹپس پر ہوتیں، حکومتوں کی تبدیلی بارے ان کے تجزیئے ہمیشہ درست ثابت ہوتے

Jul 24, 2021

خالد یزدانی

ممتاز صحافی عارف نظامی گزشتہ روز حرکت قلب بند ہوجانے کے باعث اللہ کو پیارے ہو گئے۔ موصوف بانی نوائے وقت حمید نظامی کے لخت جگر تھے۔ یہ حقیقت محتاج بیان نہیں حمید نظامی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی شخصیت تھے۔ 3 جنوری 1915ء کو پیدا ہونے والے حمید نظامی نے 1940ء میں تعلیم کی تکمیل کے بعد سیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔قائداعظم کی ہدایت پر مسلم سٹوڈنٹس جب معرض وجود میں آئی، حمید نظامی اس کا کلیدی کردار تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اردو صحافت ابتری کا شکار تھی۔ 
 گزشتہ دنوں عیدالاضحی کے روز خدا کو پیارے ہونے والے عارف نظامی 14 اکتوبر 1945ء میں پیدا ہوئے۔ گھر کا ماحول علم و ادب کا مخزن تھا۔ ابتدائی تعلیمی مدارج گھر میں طے ہوئے۔ ابتدائی تعلیم عارف نظامی نے مشنری انگریزی سکول سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کی ڈگری لی۔ بعدازاں ایک امریکی تعلیمی ادارے سے جرنلزم میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ 
عارف نظامی نے اپنے کیریئر کا آغاز نوائے وقت کے رپورٹر کے طورپر کیا۔ خبر کی تلاش کا جنون ان کے اندر آخر دم تک موجود تھا۔ معروف صحافی مجیب الرحمن شامی کا کہنا ہے عارف نظامی اپنی مخصوص حس  کی وجہ سے خبر کی خوشبو محسوس کر لیتے تھے۔ یہ صلاحیت بہت کم رپورٹرز میں پائی جاتی ہے۔ عارف نظامی نے اپنے کیریئر کے دوران  بہت سی اہم خبریں حاصل کیں اور انہیں بریک کیا۔ انہیں ورائٹی رپورٹر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
عارف نظامی نے جس گھر  اور ماحول میں پرورش پائی وہاںدن رات خبر کی بات ہوتی تھی۔عارف نظامی ایک ذمہ دار صحافی تھے۔ خبر کو چٹ پٹا بنانے کے بجائے اس کی خبریت پر یقین رکھتے تھے۔اپنے چچا کے ہاتھوںنوائے وقت کی تعمیروترقی اور ارتقاء عارف نظامی نے اپنے آنکھوں سے دیکھا۔ حمید نظامی کی زندگی میں عارف نظامی طالبعلم تھے۔ اگرچہ وہ صحافتی اسرارو موز سے آشنا ہوتے رہے، لیکن صحافت کی اصل تدریس انہیں اپنے چچا مجیدنظامی سے حاصل ہوئی۔
نوائے وقت اور نیشن میں بھرپور کام کرنے کے بعد انہوں نے اپنا انگریزی روزنامہ پاکستان ٹوڈے نکالا جسے انہوں نے بڑی ذمہ داری سے چلایا۔عارف نظامی نے ایک رپورٹر، ایڈیٹر ہونے کیساتھ ساتھ نجی ٹیلیویژن چینلز پر بہترین تجزیے بھی پیش کئے۔ ان کے تجزیوں میں خبریت بھی ہوتی تھی۔عارف نظامی متعدد اخباری تنظیموں کے عہدیدار بھی رہے۔ اے پی این ایس اور سی پی این ای کے صدر بھی رہے۔ اخباری تنظیموں کے مسائل حل کرانے میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔
بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ثقلین امام کہتے ہیں کہ عارف نظامی ہمیشہ اپنے رپورٹروں کو تحفظ فراہم کرتے تھے اور کیونکہ وہ ضیاء کا دور تھا اور ذرا سی بات پر کہیں نہ کہیں سے کوئی نوٹس آ جاتا تھا، لیکن عارف ہمیشہ اپنے رپورٹروں کا ساتھ دیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے پروفیشنل معاملات میں آزادی دی اور اچھے سٹینڈرڈز برقرار رکھے اسی طرح ’خبروں کے حوالے سے بھی وہ کوئی سمجھوتہ نہیںکرتے تھے کہ دباؤ میں آ کر کوئی خبر روک لی جائے، ایسا کرنا ان کی شخصیت کا حصہ نہ تھا۔ وہ دھیمے مزاج سے وہی کرتے جو انھوں نے کرنا ہوتاتھا ۔بطور رپورٹر حکومتی ایوانوں کی سرگرمیاں ان کی ٹپس پر ہوتی تھیں۔ حکومتوں کے آنے جانے کے بارے میں ان کے تجزیئے ہمیشہ درست ثابت ہوتے تھے۔ اپنے ذاتی روزنامے کو وہ مؤثر انداز میں چلانے کے باوجود مختلف چینلز پر تجزیے بھی کرتے تھے۔ ان کی گفتگو نہایت دلچسپ  ہوتی ,کوئی تکلیف دہ بات بھی نہایت دلکش انداز میں بیان کرتے تھے۔
عارف نظامی 2013ء میں آصف علی زرداری کے عہد صدارت اور میر ہزار خان کھوسو کے نگران وزارت عظمیٰ کے دور میں وفاقی وزیر اطلاعات رہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے وہ دل کی تکلیف کے باعث مقامی ہسپتال میں داخل تھے جہاں وہ دل کے دورے کے باعث عیدالاضحی کے روز انتقال کر گئے۔ مرحوم کے بھتیجے نے بتایا آخری دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا۔ انہیں میانی صاحب قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔
وزیر اعظم ر عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھیں عارف نظامی کی موت کا دکھ ہوا ہے اور ان کی دعائیں ان کے خاندان والوں کے ساتھ ہیں۔صدر پاکستان عارف علویء نے بھی مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا ، پیپلز پارٹی  کے آصف زرداری اور بلاول بھٹو  کے علاوہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف نے عارف نظامی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات کے ساتھ ہی صحافت کا ایک دور ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بحیثیت ایڈیٹر، صحافی اور اینکر کے کسی سے کم نہیں تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی عارف نظامی کے وفات پر تعزیت کا اظہار کیا۔
نوائے وقت گروپ کی چیئرپرسن اور منیجنگ ڈائریکٹر محترمہ رمیزہ مجید نظامی نے بھی عارف نظامی کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت کی اور ان کے لواحقین کیلئے صبرجمیل کی دعا کی۔

مزیدخبریں