: ممتاز بھٹو۔ایک وضع دار شخصیت۔

ابو محمد فاتح شاہ
ممتاز بھٹو پاکستان کی ان شخصیات میں سے ایک تھے جنہوں نے مٹتی ہوئی تہذیبی اور سماجی روایات کو زندہ رکھا۔وہ اپنی شخصیت کے اعتبار سے ایک منفرد انسان تھے۔بظاہر تو ان کی شخصیت ایک سخت گیر جاگیردار کی سی تھی لیکن حقیقی زندگی میں وہ ایک نرم دل انسان تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں عروج و زوال کے کئی مناظر دیکھے جن سے ان کے دل میں  اقتدار سے محبت بے معنی ہو کر رہ گئی ۔وہ اقتدار کے بجائے اقدار پر یقین رکھتے تھے اورسیاست کے لیے کسی بھی حد تک جانے  کے بجائے  انہوں نے اس کے لیے اپنی خاص حدود و قیود متعین کر رکھی تھیں۔ممتاز بھٹو کی پرورش اس عرصہ میں ہوئی تھی جب ان کے بھٹو خاندان کا طوطی پورے برصغیر میں بولتا تھا۔قیام پاکستان کے بعد بھی انہوں نے پاکستانی سیاست میں ایک متحرک کردار ادا کیا۔وہ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے فرسٹ کزن ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے قابل اعتماد ساتھی بھی تھے۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی تشکیل کی تو وہ اس کے اولین رہنماؤں میں شامل تھے۔بھٹو کے ساتھ اقتدار میں انھوں نے گرم سرد، اور قید و بند کی صعوبتوں کا دور بھی دیکھالیکن اپنی وضع داری پر کبھی حرف نہ آنے دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعدجنرل ضیاء کے دور میں انہوں نے جلاوطنی اختیار کرلی اور لندن میں مقیم ہوگئے۔بھٹو کے بعد کی پیپلز پارٹی سے انکی نہ بن سکی،خاص طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی کے  بعد فاصلے  بڑھ گئے۔وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے شدید ترین ناقد تھے۔کچھ عرصہ میاں نواز شریف کے بھی ساتھ ہی رہے لیکن  یہ تعلق زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکا۔اپنے آخر وقت تک وہ سیاسی میدان میں متحرک رہے۔کبھی کمزور بات نہ کی۔جو بات کی، ڈنکے کی چوٹ پر کی۔ممتاز بھٹو پاکستانی سیاست کا ایک جیتا جاگتا کردار تھے۔لمبی لمبی گاڑیوں میں گھومنا اور اپنی جاگیر میں رعب ودبدبہ قائم رکھنا ان کو پسند تھا پھر بھی ظلم کی کوئی داستان کبھی ان کے ساتھ منسوب نہ تھی۔وہ وسیع دسترخوان رکھتے تھے۔ان کی اوطاق پر جو بھی آتا اس کی تواضع اور ایک مخصوص مٹھائی سے کرتے۔اپنے گھر پر آئے ہوئے مہمان کو کبھی کھانا کھائے بغیر نہ جانے دیتے۔بدترین مخالف کا نام بھی پورے احترام سے لیتے۔وہ مٹتی روایات کے اس دور میں تہذیبی روایات کے امین سیاسی شخصیت  سمجھے جاتے تھے۔
ممتاز بھٹو کی زندگی کے شب و روز۔
ملک کی سیاست پر کئی دہائیوں تک راج کرنے والے نمایاں سیاست دان، سابق گورنر سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے کزن ممتاز بھٹو 87 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ممتاز بھٹو 29 نومبر، 1933 کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے گاؤں پیر بخش بھٹو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب نبی بخش خان بھٹو برطانوی دور حکومت میں قانون ساز اسمبلی کے رکن رہے۔
تعلیم و تربیت۔
انہوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں پیر بخش بھٹو میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سیاحتی مقام مسوری چلے گئے جہاں انہوں نے مزید تعلیم حاصل کی۔ممتاز بھٹو نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا جبکہ بیرسٹر کی ڈگری لندن کی یونیورسٹی آف لنکن سے لی۔
عملی سیاست کا آغاز۔
ممتاز بھٹو پہلی بار 32 سال عمر میں قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ بعد میں ان کے کزن ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر، 1967 کو جب نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو وہ نا صرف اس نئی پارٹی کے بانی رکن تھے بلکہ پرنسپل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن بھی بنے۔1970 کے عام انتخابات کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم پاکستان بن گئے تو انہوں نے ممتازبھٹو کو 24 دسمبر، 1971 کو گورنر سندھ نامزد کردیا جبکہ یکم مئی، 1972 کو وہ سندھ کے آٹھویں وزیر اعلیٰ بنے۔
سندھی زبان کو لازمی قرار دینے کا بل۔
ممتاز بھٹو سندھی نیشنلزم کے قائل تھے۔وہ اپنی زبان اور ثقافت کا ہر فورم پر دفاع کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ وزیراعلیٰ سندھ کے منصب کا حلف لینے کے چند ماہ بعد تین جولائی، 1972 کو ان کی حکومت نے سندھ اسمبلی میں صوبے کی سرکاری (دفتری) زبان صرف سندھی کرنے سے متعلق ایک بل جمع کروایا۔
کثیر لسانی یونٹ سندھ میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگوں کااس بل کے جمع ہونے کے بعد مختلف  رد عمل شروع ہو گیا جو کئی ماہ تک جاری رہا۔شدید ہنگامہ آرائی کے باجود ممتاز بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اکثریت کی بنیادپرسندھی زبان کی سرکاری حیثیت کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور کروا لیا۔ جس کے بعد سندھی زبان کو صوبے کی تمام دفتری اور عدالتی کارروائی سمیت صوبے کے تعلیمی اداروں میں سندھی زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت مل گئی۔اس دوران رئیس امروہوی کی نظم ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ کو بڑی شہرت ملی تاہم ہنگامہ آرائی ختم ہونے کے بعد ایک تقریر میں ممتاز بھٹو نے کہا، اگر خدا انہیں 10 سر بھی دیتا تو وہ ان سب کو سندھی زبان کے لیے قربان کر دیتے۔سندھ میںاسی لئے کچھ لوگ انہیں 'ڈہیسر' یعنی 10 سروں والوں کے نام سے بھی پْکارتے رہے۔ ممتاز بھٹو بعد میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر وفاقی وزیر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں 1977 میں انہیں پیپلزپارٹی سندھ کا صدر بھی نامزد کر دیا۔
  جنرل ضیا الحق کے  مارشل لاء کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت کے خاتمے پر ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو احتجاج  کرنے پر انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا اور بعد میں جلاوطن کردیا گیا۔بھٹو کی پھانسی کے کچھ عرصے بعد پیپلز پارٹی سے ان کی راہیں الگ ہوگئیں۔  لندن میںجلاوطنی کے دوران انہوں نے 'سندھی، بلوچ، پشتون فرنٹ' کے نام سے اتحاد قائم کر لیا۔ جبکہ بے نظیر بھٹوکے پہلے دورحکومت کے دوران 1989 میں ممتاز بھٹو نے وطن واپسی پرایک نئی جماعت سندھ نیشنل فرنٹ( ایس این ایف) کی بنیاد بھی  رکھی۔وہ 1993 ایس این ایف کی ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور 1996 میں انہیں نگران وزیر اعلیٰ سندھ نامزد کیا گیا۔
جنوری 2009 میں ممتاز بھٹو کو ایک سندھی اخبار پر مبینہ حملے کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے اس مقدمے میں عدالت سے ضمانت کروا لی۔ بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔2013 کے الیکشن سے پہلے ممتاز علی بھٹو نے اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو پاکستان مسلم لیگ ن میں ضم کردیا تھا مگر اس کی قیادت سے اختلاف کے بعد انہوں نے الگ ہو کر سندھ نیشنل فرنٹ کو دوبارہ بحال کردیا۔2017 میں انہوں نے ایک بار پھر اپنی پارٹی سندھ نیشنل فرنٹ کو پاکستان تحریک انصاف میں ضم کردیا مگر یہ اتحاد بھی دیر تک  قائم نہ رہ سکا۔
وفات۔
طویل  العمری کی وجہ سے انہیں متعدد بیماریاں لاحق چلی آرہی تھیں جسکی وجہ سے وہ کافی عرصہ سے صاحب فراش تھے۔ان بیماریوں کا مقابلہ کرتے کرتے وہ 18جولائی 2021 کو اللہ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔مرحوم نے سوگواران میں ایک بیوہ اور 2 بیٹوں سمیت 4 بچے چھوڑے ہیں، ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچکا ہے، جن سے ممتاز بھٹو کا ایک بیٹا امیر بخش بھٹو ہے جو اب پی ٹی آئی کے رہنما بھی ہیں۔ممتاز بھٹو کی دوسری اہلیہ سے ان کے دوسرے بیٹے علی حیدر بھٹو ہیں جو ایک صحافی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن