بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط


لاہور (سپیشل رپورٹر)سپریم کورٹ آف پاکستان نے حمزہ شہباز شریف کو ٹرسٹی وزیراعلیٰ بنا دیا ہے۔ پیر تک حمزہ شہباز صرف روٹین کے امور سرانجام دینگے۔ جبکہ وہ اہم فیصلے نہیں کر یں گے عدالت نے کہا کہ  بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ کیس کی سماعت پیر تک کے لئے ملتوی کرتے ہوئے کہا گیا کہ تمام فریقین کے وکلا کوسنیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا یکم جولائی کا اسٹیٹس بحال کرنے کے بعد اس کیس کوتفصیل سے سنیں گے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر  کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جمع کرائی جانے والی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ تشکیل دیا تھا چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی فل بنچ نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے حمز شہباز کا بطور وزیراعلیٰ یکم جولائی کا سٹیٹس بحال کر دیا ہے۔ حمزہ شہباز ایک مرتبہ پھر ٹرسٹی وزیراعلیٰ پنجاب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے۔ اگر پارٹی سربراہ کی ہی بات ماننی ہے تو اس کا مطلب پارٹی میں آمریت قائم کردی جائے۔چیف جسٹس نے مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ یکم جولائی کا اسٹیٹس بحال کرنے کے بعد اس کیس کوتفصیل سے سنیں گے۔ پیر تک حمزہ شہباز صرف روٹین کے امور سرانجام دینگے، حمزہ عبوری وزیراعلیٰ کے فرائض پیر تک سر انجام دینگے، کیس کی سماعت پیرکے روزہوگی، تمام وکلا کوسنیں گے۔ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق چلیں، حمزہ وہ پاور استعمال نہیں کرینگے جس سے انکو سیاسی فائدہ ہو، ٹرسٹی وزیراعلیٰ محدود اختیارات میں کام کرینگے، صوبے میں میرٹ سے ہٹ کر تقرری ہوئی تو اس کو کالعدم قرار دینگے۔پی ٹی ئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کیس کی سماعت اتوار کے روز بھی کی جائے۔ حمزہ شہباز اس اہل نہیں ہیں کہ وہ وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہ سکیں۔ حمزہ شہباز کو کابینہ بنانے سے روکا جائے۔ جسٹس عمر عطاء  بندیال نے کہا کہ اتوار کو سماعت نہیں ہو سکتی عدالت اس کیس کی جلد سماعت کرے گی۔ عدالت نے ریکارڈ مانگا تھا کیا ریکارڈ آیا ہے۔ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ اس حوالے سے میرے کلائنٹ نے مجھے کوئی اپ ڈیٹ نہیں دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم وہ چٹھی دیکھنا چاہتے ہیں جو پارٹی سربراہ کی جانب سے بھیجی گئی۔اس پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر پارٹی سربراہ چودھری شجاعت کو بھی فریق بنا لیاجائے تو بہتر ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ بادی النظر میں آپ بھی سپیکر سے اتفاق کرتے ہیں۔ عدالت جائزہ لے گی پارٹی سربراہ اور پارلیمانی سربراہ کی ہدایات میں کیا فرق ہے۔ عدالت اسی موضوع پر17مئی کا فیصلہ دے چکی ہے۔ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اس فیصلے کیخلاف ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 23 اے، 63بی کیا کہتی ہے، عدالت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پر عرفان قادر نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے اسی فیصلے کیمطابق رولنگ دی ہے۔اس موقع پر حمزہ شہباز کے وکیل منصور سرور نے کہا کہ مجھے درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض ہے۔ انفرادی شخص کامعاملہ آئین کے آرٹیکل 184 کے سیکشن تین کے تحت قابل سماعت نہیں۔ یہ سیدھا سادھا الیکشن کا معاملہ ہے جسے الیکشن کمیشن جانا چاہیے۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ سادہ سوال ہے پارٹی سربراہ کی ہدایت چلنی ہے یا پارلیمانی سربراہ کی ہدایت چلنی ہے۔حمزہ کے وکیل نے کہا کہ اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف فیصلہ آیا تو صوبے کے انتظامی امور متاثر ہوں گے۔اس سے قبل سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ وزیر اعلی کا انتخاب ہوا، حمزہ شہباز نے 179 جبکہ پرویز الٰہی نے 186ووٹ حاصل کیے لیکن ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹ مسترد کردیے۔ ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے مبینہ خط کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ (ق) کے ووٹ مسترد کیے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو دو بجے طلب کر لیا۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی سپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور آ کر بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی معاونت کے لیے سپریم کورٹ طلب کر لیا۔پرویز الٰہی کے وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز نے حلف لے لیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑنا، ہم نے آئین اور قانون کی بات کرنی ہے، آپ لوگ بھی ذرا صبرو تحمل کا مظاہرہ کریں۔عدالت نے حمزہ شہباز اور چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔ بعدازاں 2 بجے کے بعد سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر دوبارہ سماعت شروع کی تو ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عرفان قادر نے وکالت نامہ جمع کرا دیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو طلب کیا تھا وہ کیوں نہیں آئے جس پر عرفان قادر نے کہا کہ میں موجود ہوں عدالت کی معاونت کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمرہ عدالت میں اتنا رش ہے، ہدایت کی گئی تھی متعلقہ لوگ ہی آئیں، جس کے بعد فل بنچ نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی اور کہا کورٹ روم میں متعلقہ لوگ ہی ہوں گے پھر سماعت شروع کریں گے۔ چودھری پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ حمزہ شہباز کو کابینہ بنانے سے روک دیا جائے‘ جس پر عدالت کی جانب سے کہا گیا وہ مختصر ترین کابینہ رکھ سکتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو کمرہ عدالت میں صرف متعلقہ وکلاء کو ہی داخل ہونے کی اجازت دی گئی جبکہ باقی وکلاء اور سائلین کورٹ روم نمبر 3 میں لگی اسکرین پر عدالتی کارروائی سنتے رہے۔ مزید براں گزشتہ روز سپریم کورٹ اور وکلا کے درمیان ہونے والی گفتگو کی مکمل تفصیلات کچھ اس طرح ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پوچھا گیاکہ آپ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا دفاع کس بنیاد پر کر رہے ہیں۔؟ ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ  نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی بنیاد پر ہم دفاع کر رہے ہیں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 17 مئی  والے  فیصلے پر نظر ثانی نہیں کریں گے ہمارے پاس 17 مئی والا آرڈر ابھی یہاں چیلنج نہیں ہوا ہے۔ڈپٹی سپیکر نے سپریم کورٹ کے آرڈر کی آڑ لیکر وو ٹ شمار نہیں کئے ہیں ہمیں آرڈر کا  وہ حصہ بتائیں کہاں ہے؟ چیف جسٹس نے عرفان قادر ایڈووکیٹ کو کہا کہ آپ بڑے سینئر وکیل ہیں آپ کو پتہ ہو گا ہمارے فیصلے سے کہاں سے ڈپٹی سپیکر نے کیا اخذ کیا، عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں صرف 2گھنٹے پرانا ہوں، ابھی عدالت کو تمام تفصیلات سے آگاہ کرتا ہوں، چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ ہم بھی 2 گھنٹے پرانے ہی ہیں آپ ہمیں آرڈر کا متعلقہ حصہ پڑھ کر سنائیں عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں عدالت کی معاونت کرتا ہوں پہلے کچھ حقائق بتا دوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے خود ہی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پڑھ دی،ڈپٹی سپیکر نے فیصلے کے جس پیرا نمبر 3 کا حوالہ دیا وہ پڑھ دیں۔ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ آرٹیکل 3 ون اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے یہ عدالت کی تحقیق تھی نا؟  جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ عدالت کا فیصلہ ہے، عدالت کی تحقیق نہیں ہے ۔عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ڈپٹی سپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ووٹ شمار نہ کرنا درست سمجھاڈپٹی سپیکر کے پاس 2 چوائسسز تھیں، یا کہتے کہ ووٹ شمار نہیں ہوں گے یا ووٹ شمار ہو گا۔جسٹس اعجاز الاحسن  نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جو پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایت کیخلاف ووٹ دے گا وہ شمار نہیں ہو گا۔ڈپٹی سپیکر نے پیرا 3 پر انحصار کر کے کیا سمجھا ہے۔؟عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ڈپٹی سپیکر نے سمجھا ہے کہ پارٹی سربراہ ہی پارلیمنٹری پارٹی کی سربراہی بھی وہی کرتے ہیں چیف جسٹس اگر بالفرض ڈپٹی سپیکر غلط سمجھے تو نتائج کیا ہوں گے۔؟عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں آپ سے گھبراتا بہت ہوں ایسا تسلیم کرنے والا بیان نہیں دے سکتا۔بادی النظر میں خوش قسمتی یا بد قسمتی سے میری رائے بھی ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیساتھ ہے عدالت نے کہا کہ سطحی طور پر بتائیں کہ اگر ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ غلط طور پر سمجھا تو پھر آگے کیا ہو گا عرفان قادر ایڈووکیٹ نے کہا کہ حقائق پر کوئی تنازع نہیں ہے ابھی میں نے ڈپٹی سپیکر کی طرف سے جواب بھی جمع کروانا ہے اگر عدالت کہے گی تو ڈپٹی سپیکر بامقصد بیان عدالت میں پیش کر دیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صاحب! یہ از خود نوٹس نہیں ہے، یہ انکی درخواست ہے اسمبلی سے کوئی ریکارڈ پیش ہوا ہے۔؟ عرفان قادر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ میرے علم میں نہیں کہ ریکارڈ آیا ہے یا نہیں۔آپ نے ریکارڈ سے کیا مخصوص چیز دیکھنی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ سپیکر کے ہاتھ میں جو چٹھی تھی وہ دکھائیں۔ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے نظر آ رہا ہے‘ 63 اے ون بی پارلیمنٹری پارٹی کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ایسا لگ رہا ہے ڈپٹی سپیکر نے ہمارے فیصلے کیخلاف رولنگ دی ہے‘ ہمارے پاس ہمارا فیصلہ ہے جس میں یہ قانون ڈکلیئر قرار دیا گیا ہے۔عدالت نے ڈپٹی اسپیکر کو تحریری جواب جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے کہ ڈپٹی سپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی ہے۔ پنجاب حکومت بھی اپنا تفصیلی و تحریری جواب جمع کروائے۔ بادی النظر میں حمزہ شہباز کا وزارت اعلی کا عہدہ گہرے خطرے میں ہے اہم معاملہ ہے جلد سنا یاجانا چاہئے‘ چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سنے بغیر فیصلہ نہیں دے سکتے ہیںبادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ غلط ہے‘ اگر سوموار کو یہ معاملہ حل نہ ہو سکا تو پھر یہ کیس اسلام آباد میں سنیں گے ہم جمہوریت کیساتھ چلنا چاہتے ہیںپارٹی کے سربراہ کو ڈکٹیٹر کی حیثیت حاصل نہیں ہے سپریم کورٹ ایک چیز پر نہیں رکی رہتی، ہمارے پاس قلم ہے۔منگل سے زیادہ اس کیس کو نہیں چلائیں گے اگر دونوں پارٹیاں حقیقت میں ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہیں تو مل کر بیٹھیں۔وزیر اعلی پنجاب کے دفتر پر نگرانی رکھیں گے حمزہ وزیر اعلٰی پنجاب کے طور پر اہم اور بڑے فیصلے نہیں کریں گے چیف جسٹس نے کہا کہ سوموار کو اسلام آباد میں سماعت ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن