نیت نہیں دوراندیشی کا نام سیاست ہے

 میں نے ایک سال پہلے لکھا تھا کہ اقتدار شعلوں کی وہ پوشاک ہے جو چھونیوالے کو جہاں جلا کر بھسم کر دیتی ہے وہاں ذرا سی بے احتیاطی سے پہننے والے کو بھی راکھ بنا دیتی ہے کیونکہ بغاوتوں کو کچلنا آسان ہے مگر خاموش آہوں سے بچنا ناممکن ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر وہ جو حاکمیت کے اسرارو رموز سے واقف نہ ہوں اور انتظامی امور میں طاق نہ ہوں تو بڑے بڑے عادل لڑکھڑا جاتے ہیں کیونکہ لفاظی سے معاشرے نہیں چلتے اور دوعملی وہ زہر ہے جو قوموں کو مٹا دیتا ہے ۔آج ہم جس پستی میں گر چکے ہیں اس کی وجہ یہی دو عملیاں ہیں اور بد قسمتی سے خان صاحب نے اسی کو اپنا وطیرہ بنا لیا جبکہ باتیں ریاست مدینہ اوراسلامی ریاستوں کی کرتے ہیں حالانکہ وہ ایسی مقدس ہستیاں تھیں جن کے دل خشیت الہی سے پر نور تھے جوکلمہ گو ،نیک اور متقی تھے کہ اپنے خانوادے لٹانے کے لیے تیار رہتے تھے مگر باطل کے سامنے سر نہیں جھکاتے تھے اور کامیابیوں کے لیے برے راستے کا انتخاب نہیں کرتے تھے بلکہ حق پر ڈٹ جاتے تھے مگر میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے مصداق سیاسی بازیگروں کا وطیرہ بن چکا ہے کہ جہاں انھیں فائدہ نہیں ہوتا وہاں وہ اپنے ہی اداروں پر کیچڑ اچھالنے سے گریز نہیں کرتے تو ایسا نظام کب تک چل سکتا ہے اور وقت کی گھڑیوں نے دیکھا کہ بے بس و مجبو عوام کی خاموش آہیں لگیں اور تخت الٹ گئے ۔۔
سارے فساد کی جڑ ہی یہی ہے کہ سیاست سیاسی میدانوں سے نکل کر پیر خانوں کے حجروں میں پہنچ گئی ہے ۔ہم مانتے ہیں کہ سیاست پہلے بھی خدمت نہیں تھی لیکن اب بغاوت کی شکل اختیار کر رہی ہے اوروطن عزیز کوسری لنکا بنانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں ۔کوئی تو سمجھائے کہ الیکشن کمیشن کے غیر جانبدرانہ ،آزاد و شفاف انتخابی عمل کے انعقاد نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے کہ ڈٹ کر اپنے امیدوار کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسی کو نازیبا القابات سے نواز ا جا رہا ہے اور اس کا استعفی لینا حیات کا مشن بتا کرگمراہی پھیلائی جا رہی ہے۔حاضر سروس افسران کو کھلے عام سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں اور یہیں پر بس نہیں وہ ترجمان جو تین تین پارٹیوں سے اپنی مفاد پرستیوں کیوجہ سے ٹھکرائے جا چکے ہیں وہ اداروں کو یوں للکارتے ہیں جیسے اندرون شہر محلہ مکین بچوں کی لڑائی پر ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں یقینا معاملات اتنے سیدھے نہیں رہے کیونکہ 60 فیصد کے ذہن و دل کو قابو کر کے اداروں کے خلاف بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے جو کہ طے ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں اور بیانیوں کی قیمت دیر یا بدیرادا کرنا ہوگی جبکہ کوئی بھی اس پہلو پر نہیں سوچ رہا کیونکہ سبھی اقتدار کے پیچھے پاگل ہیں اور ملک و قوم کی کسی پرواہ نہیں ہے ورنہ کوئی تو متوقع خساروں بارے سوچے۔المختصر پنجاب کی پگ کوئی بھی پہنے سوال تو یہ ہے کہ عوام کو کیا ملے گا ؟قطری ،خطری اور گجراتی خط نے ملکی وقار کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں اورموجودہ سیاسی بحران کیوجہ آصف زرداری کو قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ ان کی مفاہمتی صلاحیت سے ماضی میں بشمول عمران خان سبھی تعاون حاصل کر چکے ہیں۔ مفاہمت بنیادی طور پر معاملہ فہمی ،بلند اخلاقی ،عجزو انکساری اور برداشت کے ساتھ مخالفین سے نپٹتے ہوئے خود کو انتہائی اقدام سے دور رکھنے کا نام ہے جو دوراندیش بناتی ہے اور دور اندیشی کانام ہی سیاست ہے ۔ انتقامی کاروائیوں ، گالی گلوچ اور فتنہ بازی سے مفاہمت ہزار درجے بہتر ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ دوراندیش مسلم حکمران اپنے حریفوں کی بغاوتیں کچلنے کے لیے بھی اس پالیسی کو استعمال کیا کرتے تھے ۔ایک بہترین حکمران میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے ورنہ وہ جابریت اور فرعونیت پر اتر آتا ہے جیسا کہ خان صاحب نے کیا کہ موقع پرستوں اور شکست خوردہ افراد کو اپنے دست و بازو سمجھا مزید برآں انکے غلط مشوروں پر انتشارو اشتعال کو عام کرنا گویا اپنے وقار کو ختم کرنے کے مترادف تھا لیکن وہ اپنی بغاوتی طرز سیاست پر ڈٹے رہے ان کے چاہنے والے شور مچاتے رہے مگر اقتدار اور طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور اسی تکبر و انانیت نے اس مقا م پر پہنچا دیا ہے کہ زمین پر چل نہ سکا آسمانوں سے بھی گیا ،کٹے جو پر تو پرندہ اڑان سے بھی گیا 
کسی کے ہاتھ سے نکلا ہوا وہ تیر ہوں میں 
ہدف کو چھو نہ سکا اور کمان سے بھی گیا 
گو کہ تحریک انصاف اس فیصلے کی توقع نہیں کر رہی تھی اب جبکہ آچکا ہے تو سر تسلیم خم کریں اور اشتعال انگیزی سے پرہیز کریں بلکہ ساری توانائیں عوام میں کم ہوتے وقار کو بحال کرنے میں لگائیں،یقین رکھیں کہ اللہ کبھی دیکر اور کبھی لیکر آزماتا ہے اور یہ سوچیں کہ ہر طرف سیلاب ہی سیلاب ہے ،افلاس ،بیروزگاری ،لا قانونیت ،پانی ، انتشار،نفرتوں،دہشت گردی اور فرقہ واریت کا پھر کیسی جیت ۔۔؟جو جیتے ہیں ان کے لیے بھی کڑا امتحان ہے اگر عوام کو فوری ریلیف نہ ملاتو ان کا سیاسی مستقبل بھی تاریک ہوجائے گا لہذسبھی سیاست چھوڑ کر ملک و ملت کے وفادار بن کر ملک کے وقار ،ترقی و خوشحالی کے لیے محنت کریں کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اورمان لیں کہ جنونیت نہیں دورا ندیشی کا نام سیاست ہے ۔

ای پیپر دی نیشن