میرے والد سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہونے کے بہت شائق تھے۔ وہ 1919ء میں جلیاں والا کے اس جلسے میں موجود تھے جس پر جنرل ڈائر کے حکم سے انتہائی بے رحمی سے گولیاں برسائی گئی تھیں اور ایک ہزار کے قریب سامعین موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس وقت وہ انیس سالہ نوجوان تھے اس لیے کسی قدر دقت سے باغ کی جنوبی دیوار پھلانگ کر گھر پہنچ گئے جو باغ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اکتوبر 1947ء میں قائداعظم نے پنجاب یونیورسٹی گراؤنڈ میں ایک جلسے سے خطاب کیا تھا۔ اباجی مجھے بھی اپنے ساتھ اس جلسے میں لے گئے۔ کچھ یاد نہیں کہ قائداعظم نے کیا فرمایا تھا لیکن یہ یاد ہے کہ سٹیج کس طرف تھا اور لوگوں کا کتنا ہجوم تھا جو مدرستہ البنات سے ملحقہ سڑک تک پھیلا ہوا تھا۔ 1951ء میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بہت بڑھ گئی اور کسی بھی وقت جنگ چھڑ جانے کا خطرہ تھا تو لیاقت علی خان (وزیراعظم پاکستان) لوگوں کا حوصلہ بڑھانے لاہور آئے اور منٹوپارک (موجودہ مینارِ پاکستان) کے وسیع میدان میں خطاب کیا۔ اس جلسے میں بھی میں ابا کے ساتھ گیا تھا۔ یہی وہ مشہور جلسہ ہے جس میں لیاقت علی نے اپنے دائیں ہاتھ کا مکا کندھوں سے اوپر اٹھایا تھا اور دشمنوں کو بتایا تھا کہ ہماری قوم کی پانچوں انگلیاں اس مکے کی طرح متحد ہیں۔
بعد ازاں، میں نے پاکستان کے ان گنت سیاست دانوں کی تقاریر سنیں۔ ان میں مذہبی سیاست دان بھی تھے اور اہلِ اقتدار بھی۔ اچھی خطابت ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ فطری جوہر ہے جسے تربیت سے اور زیادہ چمکایا جاتا ہے۔ میں نے جن لوگوں کی تقاریر سنی ہیں ان میں سے بعض کو ہزاروں لاکھوں سامعین تو نصیب ہوئے مگر اقتدار میں آنے کا موقع نہیں ملا۔ قیامِ پاکستان سے پہلے مجلسِ احرارِ اسلام میں ایک سے بڑھ کر ایک خطیب موجود رہا۔ اس سلسلے کے جن دو بڑے خطیبوں کو سننے کا موقع ملا وہ سیّد عطا اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری تھے۔ 1953ء میں جب اینٹی قادیانی تحریک بڑے زور پر تھی اور جس کے نتیجے کے طور پر لاہور میں اعظم خان کا مارشل لا لگا تھا، ان دنوں مجھے عطا اللہ شاہ بخاری کا خطاب سننے کا موقع ملا۔ یہ میرے جھنگ کے قیام کا دور تھا اور میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ شاہ صاحب کی خطابت کا بہت چرچا تھا۔ انھوں نے سبزی منڈی جھنگ صدر میں خطاب کیا تھا جہاں سے میرا گھر اتنا نزدیک تھا کہ میں اپنے کوٹھے سے پوری تقریر سن سکتا تھا لیکن میں نے جلسے میں جانا ضروری سمجھا۔ نمازِ عشا کے بعد پہلے دو تین مقررین نے مختصر تقریریں کیں اور پھر شاہ صاحب سٹیج پر آئے۔ میں چونکہ ابھی لڑکپن کی حدود میں تھا اس لیے سفید ریش شاہ صاحب بہت بوڑھے دکھائی دیے۔ جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا اس وقت ا ن کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہوگی۔ صحت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ لاٹھی کے سہارے چلتے تھے۔ سرخ و سفید چہرہ اور سفید پٹے تھے اور بہت وجیہہ بزرگ معلوم ہوئے تھے۔ نہایت دل آویز تلاوتِ کلامِ پاک سے تقریر شروع کی اور پھر فجر کی اذان شروع ہوتے ہی خطاب ختم کر دیا۔ اتنی دلچسپ تقریر تھی کہ تمام لوگ آخر تک بیٹھے سنتے رہے۔ کبھی جوش میں آ جاتے۔ کبھی رونے اور کبھی قہقہے لگانے لگتے۔
لاہور آنے کے بعد شورش کاشمیری کی بہت سی گفتگوئیں اور تقریریں سننے کے مواقع میسر آئے۔ علامہ اقبال کے یومِ وفات پر پنجاب یونیورسٹی ہال میں ہر سال بہت پُر رونق جلسہ ہوتا تھا۔ سٹیج سیکرٹری شورش ہوا کرتے تھے۔ وہ ہر مقرر کے جانے کے بعد چند منٹ خطاب کرتے تھے اور یہ گفتگو بعض مقررین کی خنک تقاریر کا بہت اچھا ازالہ کرتی تھی۔ یوں تو میں نے شورش کی بہت تقریریں سنی ہیں لیکن 1970ء کے انتخابی جلسوں کے سلسلے میں شریف پارک اچھرہ میں ان کی طویل تقریر جو کم از کم تین گھنٹے جاری رہی، لاجواب تھی۔ ان کی تقریر عوامی بھی ہوتی تھی لیکن اس میں ادبی جملوں اور ترکیبوں کی فراوانی بھی بہت متاثر کن ہوا کرتی تھی۔ لگتا تھا وہ تقریر نہیں کر رہے بلکہ اپنے ہفت روزہ ’چٹان‘ کا کوئی اداریہ پڑھ رہے ہیں۔ ویسے ان کی تحریر اور تقریر ایک ہی اسلوب میں ہوتی تھی اور اس میں برمحل اشعار کی فراوانی مستزاد تھی۔
مذہبی سیاست دانوں میں طاہر القادری بھی بے مثال مقرر ہیں۔ پُرجوش استدلال کے ساتھ پوری تقریر کا ربط و تسلسل حیران کن ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ جن مقررین کو سننے کا موقع ملا ان میں کوثر نیازی اور ڈاکٹر اسرار احمد کی خطابت سامعین کو بہت متاثر کرتی تھی۔ مولانا مودودی کا خطاب عالمانہ اور غیرجذباتی ہوتا تھا۔ اردو بہت خوبصورت اور جملہ سازی عمدہ لیکن جوشِ بیان سے شاید عمداً گریز کرتے تھے۔
سیاست دانوں میں جن لوگوں کو سننے کا ایک دوبار موقع ملا ان میں چودھری محمد علی (سابق وزیراعظم) اور ائیرمارشل اصغر خان خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ چودھری صاحب اور اصغر خان دونوں کو انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور تھا۔ چودھری صاحب غیرجذباتی انداز میں بہت اچھی تقریر کرتے تھے اور اپنے نقطۂ نظر کو منطقی انداز میں واضح کر دیتے تھے مگر اس کے باوجود سامعین اکتاتے نہیں تھے۔ اصغر خان کی تقریر چودھری صاحب کی تقریر سے زیادہ اچھی ہوتی تھی۔ حسبِ ضرورت ہوش اور جوش دونوں سے کام لیتے تھے اور ہلکے پھلکے طنز و مزاح کی آمیزش سے تقریر میں دلکشی پیدا کر دیتے تھے۔
روایتی سیاست دانوں میں سے میں نے خواجہ ناظم الدین، عبدالرب نشتر، حسین شہید سہروردی اور ڈاکٹر خان صاحب کو سنا ہے۔ خواجہ ناظم الدین کا خاندان ان بنگالیوں میں تھا جو اردو شوق سے پڑھتے اور بولتے تھے اس لیے وہ اردو میں مناسب تقریر کر لیتے تھے۔ سہروردی بھی بنگالی تھے مگر مناسب حد تک اردو بھی جانتے تھے۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں سے ان کے بہت روابط تھے۔ شورش کاشمیری، نواب زادہ نصر اللہ اور خواجہ رفیق ان کے قریبی ساتھی تھے اور تینوں بڑے اچھے مقرر تھے۔ سہروردی خاصا وقت ان لاہوری دوستوں کے ساتھ صرف کرتے تھے اس لیے وہ حسبِ ضرورت اردو میں اچھی خاصی تقریر کر لیتے تھے۔ ڈاکٹر خان صاحب اور سردار نشتر دونوں کی مادری زبان پشتو تھی۔ ڈاکٹر خان صاحب کے لہجے پر پشتو کا غلبہ تھا لیکن نشتر کا لہجہ ان سے بہتر تھا جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شعر و ادب سے بہت لگاؤ رکھتے تھے۔ فارسی میں شعر بھی کہتے تھے اور اکبر الٰہ آبادی سے مراسلت کے ذریعے اصلاح بھی لی تھی۔
یہ موضوع دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تفصیل طلب ہے۔ ابھی اس کالم میں ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو، نوازشریف، شہباز شریف، عمران خان وغیرہ کی خطابت کا ذکر نہیں آ سکا۔ خیر بہ شرطِ زندگی کبھی ان کا بھی ذکر آئے گا مگر میں عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ پرجوش مقررین کے مضراثرات کا سخت ناقد ہو چکا ہوں اور ہماری حالیہ سیاست میں اسی رنگ کا غلبہ ہرسو نظر آتا ہے۔ جذباتی قوم، جذباتی سیاست دان اور عقل و فہم سے منزلوں دور سامعین __اب یہی ہماری میراث ہے، جیسی روح ویسے فرشتے!