حمزہ شہباز کے دوبارہ انتخاب سے سیاسی اور آئینی جنگ میں اضافہ

سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری پرویز لالٰہی کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر حمزہ شہباز کو پیر تک بطور ٹرسٹی وزیراعلیٰ کام کرنے کی ہدایت کردی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پرویز الٰہی کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ حمزہ شہباز آئین اور قانون کے مطابق کام کریں گے اور بطور وزیراعلیٰ وہ اختیارات استعمال نہیں کریں گے، جس سے انہیں سیاسی فائدہ ہوگا۔ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے عدالت عظمیٰ سے مزید وقت کی استدعا کی اور کہا تھا کہ وہ تحریری جواب عدالت میں جمع کروانا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی اہم ہے اور ہم چاہتے ہیں جتنی جلدی ہو سکے اس کا فیصلہ کردیں۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دئیے کہ بادی النظر میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے تاہم عدالت نے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جمعۃ المبارک کے روز منعقد ہونیوالے وزیراعلیٰ پنجاب کے ’’رن آف‘‘ الیکشن میں ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کے خط کی بنیاد پر چودھری پرویزالٰہی کے حق میں ڈالے گئے مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹ مسترد کئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حمزہ شہباز تین ووٹوں کی اکثریت سے دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے جنہوں نے ہفتے کے روز اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے فیصلہ کو جمعۃ المبارک کی شب کو ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس کی گزشتہ روز چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے بنچ کے روبرو لاہور رجسٹری میں سماعت ہوئی جو فاضل بنچ نے باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کو متعلقہ ریکارڈ سمیت عدالت میں طلب کرلیا۔ 
فاضل عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے حمزہ شہباز کے انتخاب کیخلاف چودھری پرویز الٰہی کی دائر کردہ درخواست کی پانچ جولائی کو سماعت کی تھی۔ درخواست میں آئین کی دفعہ 63۔اے کی وضاحت کے حوالے سے صدارتی ریفرنس میں صادر کئے گئے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کی بنیاد پر پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان کی نشستیں خالی ہونے کے باعث حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کے جواز کو چیلنج کیا گیا اور وزیراعلیٰ کے ازسرنو انتخاب کی استدعا کی گئی۔ فاضل عدالت عظمیٰ نے اس درخواست کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے فریقین کی رضامندی سے حمزہ شہباز کو خالی نشستوں کے ضمنی انتخابات تک وزیراعلیٰ کے منصب پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ 22 جولائی کو شام چار بجے اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے وزارت اعلیٰ کے دونوں امیدواروں چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے مابین رن آف الیکشن کرائیں جس میں ایوان میں موجود تمام ارکان اسمبلی کو اپنے اپنے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع دیا جائے اور ان کیخلاف کسی قسم کا جبری ہتھکنڈہ استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ 
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن یکسر تبدیل کردی اور چودھری پرویز الٰہی کو اپنے مدمقابل امیدوار حمزہ شہباز پر واضح برتری حاصل ہو گئی۔ اس بنیاد پر 22 جولائی کو وزیراعلیٰ کے رن آف الیکشن میں چودھری پرویز الٰہی کی کامیابی نوشتہ دیوار نظر آرہی تھی کیونکہ انکے حامی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کی تعداد 186 تک پہنچ گئی تھی جن کے مقابل حمزہ شہباز کے حامی ارکان کی تعداد 179 رہ گئی تھی۔ اس بنیاد پر پی ٹی آئی نے 22 جولائی کو چودھری پرویز الٰہی کے انتخاب پر جشن کی تیاریاں بھی کرلی تھیں اور چودھری فواد حسین نے 22 جولائی کو وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور صوبائی وزیر داخلہ عطاء اللہ تارڑ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کردیا جبکہ پی ٹی آئی قائد عمران خان نے حکومتی اتحاد پر پی ٹی آئی کے ارکان کو خریدنے کی کوششوں کے الزامات بھی عائد کئے۔ 
وزیراعلیٰ کے انتخاب سے دور روز قبل سابق صدر مملکت آصف زرداری لاہور آئے جنہوں نے وفاقی حکومت میں اپنے حلیف چودھری شجاعت حسین سے انکی اقامت گاہ پر ملاقات کی جو نتیجہ خیز ثابت ہوئی اور چودھری شجاعت حسین نے مسلم لیگ قاف کے صدر کی حیثیت سے باضابطہ مراسلہ لکھ کر مسلم لیگ (ق) کے ارکان پنجاب اسمبلی کو وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈالنے کی ہدایت جاری کردی۔ ان ارکان میں خود چودھری پرویز الٰہی بھی شامل تھے۔ چودھری شجاعت حسین کے اس فیصلہ سے چودھری فیملی کی مستقبل کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہونگے اور انکے خاندان میں مزید کتنی تقسیم ہوگی‘ یہ تو بعد کا معاملہ ہے مگر اس خط کے فوری اثرات چودھری پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ سے محرومی کی صورت میں مرتب ہوئے کیونکہ اس خط کی بنیاد پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے سپریم کورٹ کی دفعہ 63۔اے کی تشریح سے متعلق دی گئی رولنگ کا سہارا لے کر چودھری پرویزالٰہی کے ووٹ سمیت انکے حق میں پڑنے والے مسلم لیگ (ق) کے دس کے دس ووٹ مسترد کردیئے۔ 
اس بنیاد پر حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے سے فریقین کے مابین سیاسی اور قانونی تنازعہ مزید بڑھ گیا ہے اور پی ٹی آئی اور قاف لیگ کے قانونی ماہرین ڈپٹی سپیکر کے فیصلہ کو آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلہ سے انحراف کے مترادف قرار دیکر ان پر آئین کی دفعہ 6 کے اطلاق کا تقاضا کر رہے ہیں جبکہ حکومتی اتحاد کے حامی وکلاء کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کے فیصلہ کو آئین کی دفعہ 63۔اے اور سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق قرار دیکر انہیں ایک نئی تاریخ رقم کرنے اور ’’عمرانی فتنہ‘‘ سے قوم کو نجات دلانے کا کریڈٹ دیا جارہا ہے۔ یہ یقیناً آئین کی دفعہ 63۔اے کی مزید تشریح کا معاملہ ہے جو بہرصورت سپریم کورٹ نے ہی طے کرنا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اور انکے حامیوں کے بقول آئین کی دفعہ 63۔اے میں کسی پارٹی کے ارکان کو اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ پر عملدرآمد کا پابند کیا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں چودھری پرویز الٰہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس لئے مسلم لیگ (ق) کے ارکان نے اپنی پارلیمانی پارٹی کے فیصلہ پر ہی عملدرآمد کیا اور اس تناظر میں پارٹی صدر کے خط کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ دوسری جانب حکومتی اتحاد کی جانب سے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے معاملہ میں دفعہ 63۔اے کے ریفرنس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر صاد کیا جارہا ہے اور باور کرایا جارہا ہے کہ اس فیصلہ میں دوٹوک الفاظ میں پارٹی ہیڈ کو اپنی پارٹی کے منحرف ارکان کیخلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے جبکہ آئین کی دفعہ 63۔اے میں بھی یہ اختیار پارٹی ہیڈ کو ہی حاصل ہے۔ 
یقیناً یہ معاملہ تشریح طلب ہے کہ آیا پارلیمانی پارٹی اپنے پارٹی سربراہ کے فیصلہ یا رائے کے برعکس کوئی فیصلہ کر سکتی ہے اور پارلیمانی پارٹی ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس پارٹی میں پارٹی ہیڈ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس معاملہ میں آئین کی شارح کی حیثیت سے سپریم کورٹ ہی چودھری پرویز الٰہی کی درخواست کے فیصلہ میں گائیڈ لائن دیگی تاہم اس وقت ملک میں سیاسی افراتفری‘ انتشار اور عدم استحکام کی جو فضا پیدا ہو چکی ہے‘ وہ ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل سکتی ہے اور اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ درست قرار پا گئی تو اسکی بنیاد پر چودھری پرویزالٰہی سمیت مسلم لیگ (ق) کے تمام دس ارکان اپنی اسمبلی کی رکنیت سے بھی محروم ہو جائیں گے اور ان نشستوں کے ضمنی انتخاب کی صورت میں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ پر پھر سنگین خطرے کی تلوار لٹک جائیگی۔ اس طرح اقتدار کی میوزیکل چیئر سسٹم کی بقاء و استحکام کے معاملہ میں کوئی نہ کوئی گل کھلا کر رہے گی۔ 
درپیش چیلنجوں کی بنیاد پر وطن عزیز اس وقت سیاسی عدم استحکام کا ویسے ہی متحمل نہیں ہو سکتا اس لئے ایک دوسرے کیخلاف صف آراء سیاسی قائدین ہوش کے ناخن لیں اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کریں۔ اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ ایک میز پر بیٹھ کر قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے اور افہام و تفہیم سے کام لیا جائے بصورت دیگر کل کو کسی کے بھی ہاتھ کچھ نہیں آئیگا اور جمہوریت کا مردہ بھی خراب ہوگا۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...