مردم شناس ہوناایک وصف ہے جوہرکسی کوعطانہیں ہوتا ۔ آج مجھے پاکستانی صحافت کے شہسوار جناب مجیدنظامیؒ بہت یادآئے ۔آصف علی زرداری نے جس جوانمردی سے حالات کامقابلہ کیاپاکستان میں ایسی کوئی اورمثال نہیںملتی ۔ آصف علی زرداری کی پہچان کرنابھی آسان کام نہیں تھا۔ محترم مجیدنظامیؒ اپنے عہدکے بے مثال ایڈیٹر تھے جواس حقیقت سے واقف تھے کہ آصف علی زرداری پرظلم کی انتہاکردی گئی ہے ۔ آصف علی زرداری کی قوت برداشت اورفہم وفراست کومجید نظامی صاحب جیسی بڑی شخصیت ہی دیکھ سکتی تھی ۔ چنانچہ جناب مجیدنظامیؒ نے آصف علی زرداری کو"مردِ حُر"کاخطاب دیا ۔ جناب مجیدنظامیؒ نے آصف علی زرداری کومردِ حُر کاخطاب ایک ایسے دورمیں عطاکیاتھا جب آصف علی زرداری کے متعلق عوام میں انتہائی ناپسندیدہ شخصیت کاتاثرقائم کردیاگیاتھا ۔ لیکن آنے والے وقت نے ثابت کردیاکہ مجیدنظامی صاحب نے آصف علی زرداری بارے جوکہاوہ الفاظ کے معنی کے مطابق درست ثابت ہوا۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے نتیجے میں جب بیس ایم پی اے اپنی نشستوں سے محروم ہوئے تواس وقت مسلم لیگ(ن) اورتمام سیاسی تجزیہ کاروں کاخیال تھاکہ اب نوازلیگ کی پنجاب میں شکست سامنے نظرآرہی ہے۔ چنانچہ جب ضمنی انتخابات ہوئے توتحریک انصاف نے اپنی ہی جیتی ہوئی بیس نشستوں میں سے پندرہ نشستیں دوبارہ حاصل کرلیں ۔ نوازلیگ کی پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ صاف نظرآرہاتھا کہ اب باقی نہیں رہ سکتی۔ پاکستان کے تمام سیاسی تجزیہ کاراورسیاستدان وہی سوچ رہے تھے جوسامنے نظرآرہاتھا ۔ایسے حالات میں جب آصف علی زرداری سے پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ بارے پوچھاگیا تواعتمادسے جواب دیا کہ وزیراعلیٰ حمزہ شہبازہی رہیںگے ۔ تاہم آصف علی زرداری کے بیان کے بعد تحریک انصاف اور میڈیاپر زوروشورسے پروپیگنڈہ کیاجانے لگاکہ تحریک انصاف کے ایم پی اے کی قیمت لگ چکی ہے اورایک ووٹ کا ریٹ چالیس سے ساٹھ کروڑ بتایاجانے لگا ۔تجزیہ کاروں اورسیاسی پنڈتوں کواس بات کایقین ہوچکاتھا کہ آصف علی زرداری نے اگردعویٰ کیاہے توکامیابی کی ایک ہی صورت ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران کوخریدلیاجائے چونکہ ق لیگ کے ممبران اسمبلی کوتوخریدانہیں جاسکتاکیونکہ ان کی اپنی جماعت کالیڈروزیراعلیٰ کااُمیدوارہے ۔ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے پندرہ صوبائی اسمبلی کے امیدوارکامیاب ہوگئے تھے اورگزشتہ ہفتوں سے میڈیاپرصبح سے شام تک دوٹوں کی گنتی جاری رہتی تھی ۔ ان حالات میں آصف علی زرداری ووٹوں کی گنتی نہیں کررہاتھا بلکہ وہ اپنے طے شدہ منصوبہ پرکام کررہاتھا ۔ میڈیاپرخبریں آنے لگیں کہ آصف علی زرداری نے لاہورمیں ڈیرے ڈال لئے ہیں ۔ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی کوخریداجارہاہے ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی جوکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی ۔آصف علی زرداری لاٹھی کے سہارے قائداعظم مسلم لیگ کے صدرچوہدری شجاعت کے گھر جاکربیٹھ گیا۔ان دو رہنمائوں کی ملاقا ت کے حوالے سے یہی قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ آصف علی زرداری ،چوہدری شجاعت کے پاس حمزہ شہباز کی حمایت حاصل کرنے کے لئے گئے ہیں ۔ چونکہ آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کی پندرہ نشستوں پرکامیابی کے بعدیہ کہہ دیاتھاکہ وزیراعلیٰ حمزہ شہبازہی رہیں گے ۔ آصف علی زرداری نے الیکشن 2018کے بعد نوازشریف کواس بات پر راضی کرلیاتھا کہ وزارتِ اعلیٰ پرویزالٰہی کودی جائے لیکن پرویزالٰہی نے نون لیگ سے اتحادکومستردکردیااوراسمبلی کے اسپیکرمنتخب ہوگئے ۔ جب پنجاب میں عثمان بزدارکی وزارتِ اعلیٰ کاخاتمہ ہواتوایک بارپھرپرویزالٰہی کونون لیگ اورپیپلزپارٹی کی طرف سے وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش ہوئی جسے پرویزالٰہی نے مان بھی لیا لیکن پھرانھوں نے اپنافیصلہ بدل ڈالااورتحریک انصاف کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدواربن گئے ۔ مردِ حر آصف علی زرداری کوامام سیاست بھی کہاجاتاہے چنانچہ اب اس نے فیصلہ کرلیاتھا کہ وہ سیاست کے کھیل کاوہ کارڈکھیلیں گے جوکسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ ۔ یادرہے کہ عدالت عظمیٰ یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ اگرکسی جماعت کاممبرپارٹی سربراہ کی منشایاحکم کے خلاف ووٹ ڈالے گا توایساووٹ شمارنہیں ہوگااورممبراسمبلی اپنی نشست سے بھی محروم ہوجائے گا۔ آصف علی زرداری قانون دان تونہیں لیکن قانون سازضرورہے ۔ سپریم کورٹ نے جوفیصلہ دیاتھا وہ ملک کاقانون بن چکاہے۔ سپریم کورٹ کے بنائے ہوئے اس قانون کی روشنی میں ہی اب آصف علی زرداری کوفیصلہ کرناتھا۔ چنانچہ آصف علی زرداری نے چوہدری شجاعت حسین کواعتمادمیں لے کر ایسی چال چلی جس نے سیاستدانوں کوورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔آصف علی زرداری کی یہ سوچ اورحکمت عملی نہیں تھی بلکہ اس نے اپنے کارڈکوآخری وقت تک خفیہ رکھا اور اپنا وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا ہدف حاصل کرلیا۔