بس سروس پراجیکٹ: وزیر اعظم سے چند گزارشات

وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے وفاقی دارلحکومت میں شہریوں کو بہترین سفری سہولیات دینے کیلئے میٹرو بس پراجیکٹ میں جو توسیع کی ہے وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ جڑواں شہروں میں پہلے سے موجود میٹرو بس سروس میں نئے روٹس کا اضافہ شہرسے ٹریفک کے بہائو کو کم کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔ اسلام آباد پر سیاحتی مقامات یعنی شمالی پنجاب اور جنت نظیروادی کشمیر کی ایک مرکزی گزرگاہ ہونے کے سبب ہیوی ٹریفک کا خاصا دبائو تھا اور اس  وجہ سے مقامی شہری بہت مشکلات سے دوچار تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کم وقت میں گرین لائن اور بلیو لائن میٹرو بس سروسز کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے اور ایک ماہ کیلئے ان بس سروسز میں مفت سفر کا اعلان بھی کیا ہے جس سے شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔مذکورہ منصوبے کی ریکارڈ مدت میں تکمیل قابل ستائش ہے لیکن اس میں کچھ بڑی خامیاں بھی ہیں جو دور کئے جانے کی متقاضی ہیں۔
 اس سلسلے میں میری وزیر اعظم شہباز شریف سے چند گزارشات ہیں جن پر توجہ دینے سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک سے خاص طور پر تہواروں اور سیاحتی سیزن کے دوران اسلام آباد بالخصوص تقریباََ3 لاکھ آبادی والے نواحی علاقے بہارہ کہو کے رہائشیوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔خاص طورپر ایمرجنسی کی صورت میں شہریوں کوبے ہنگم اور ہیوی ٹریفک کا سنگین خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے ایک اور منصوبہ تاوقت پائپ لائن میں ہے جس کے تحت بہارہ کہو کا بائی پاس بنایا جانا ہے۔ اگر یہ منصوبہ بھی مکمل ہو جائے تو مقامی آبادی کے سفری مسائل میں 90 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ ابھی تک مذکورہ پراجیکٹ میں سوائے سٹارٹنگ اور اینڈنگ پوائنٹ کی نشاندہی کے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔ وزیر اعظم صاحب اس منصوبے کو بھی ذاتی دلچسپی لے کر ’’شہباز سپیڈ‘‘ سے مکمل کروا سکتے ہیں۔ دوسرا بڑا مسئلہ گرین لائن اور بلیو لائن میٹرو بس کے روٹس کا ہے۔ بہارہ کہو سے پمز ہسپتال تک چلنے والی گرین لائن میٹرو سروس کا مین ٹرمینل جیلانی سٹاپ ‘ بہارہ کہو میں بنایا گیا ہے جو آبادی کے بالکل شروع میں واقع ہے جبکہ بہارہ کہو کا مرکز اٹھال چوک جیلانی سٹاپ سے ایک کلومیٹر آگے ہے اور اس سے مزید دو کلو میٹر آگے تک گنجان آباد علاقے موجود ہیں۔ جیلانی سٹاپ ٹرمینل تک پہنچے کیلئے شہریوں کو بدستور روایتی ٹرانسپورٹ میں دھکے کھانا پڑتے ہیں اور فی مسافر 20سے 40 روپے گرین لائن ٹرمینل تک پہنچنے میں خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اگر جیلانی سٹاپ پر ٹرمینل بنانے کی بجائے ڈیڑھ کلومیٹر آگے قاضی آباد سٹاپ یا مزید ایک کلومیٹر آگے سترہ میل رائونڈ آبائوٹ پر گرین لائن کا مین ٹرمینل بنا دیا جائے تو مزید ہزاروں مسافروں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس طرح انہیں جیلانی سٹاپ ٹرمینل تک آنے کیلئے اضافی رقم بھی نہیں خرچ کرنا پڑے گی اور وہ روایتی پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھانے کی بجائے بہتر سفری سہولت سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ تیسرامسئلہ گرین لائن کیلئے بنائے جانیوالے بس سٹاپس کے حوالے سے ہے جواگرچہ پہلے سے موجود سٹاپس پر ہی بنائے گئے ہیں لیکن عجلت کی وجہ سے معیاری تعمیراتی و مرمتی کام نہیں ہو سکا جس کے ذمہ دار وفاقی ترقیاتی ادارہ اور متعلقہ ٹھیکیدار ہیں۔ گرین لائن کے چند سٹیشنز اگرچہ ابھی بنے ہی نہیں لیکن جو بنے ہوئے ہیں وہ پہلی برسات کی مار بھی نہیں سہہ سکے اور شکست و ریخت کا شکار ہو گئے ہیں ۔ ان بس سٹاپس کی وڈیوز سوشل میڈیا پر اچھی خاصی وائرل رہی ہیں اور فی الوقت ان پر پلاسٹک شیٹس ڈال کر برساتی پانی کو روکنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔آپ کی نیک نیتی اور عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ کے ماتحت متعلقین نے ہمیشہ کی طرح اس پراجیکٹ کے بارے میں بھی ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ پیش کی ہے۔ ناقص تعمیراتی و مرمتی کاموں کا نوٹس لے کر اصلاح احوال کی اشد ضرورت ہے۔ یہی حالات بلیو لائن میٹرو سروس کے ہیں ۔ ان دنوں ملک مشکل معاشی حالات کا شکار ہے اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ گاڑیوں پر سفر کرنے والے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے سبب موٹر سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں والے سائیکلوں پر آ گئے ہیں۔اس ضمن میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ماحولیاتی تبدیلیوںکے پیش نظر سڑکوں پر گاڑیوں کی نسبتاََ کم تعدادایک طرح سے فائدہ مند بھی ہے ۔تاہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے ہر طبقہ پریشان ہے اور شہریوں کا روزی روٹی کی تلاش یا نوکری کیلئے منزل مقصود پر پہنچنا خاصا مشکل ہو چکا ہے۔  اس مسئلے کا حل صرف اسی صورت ممکن ہے  کہ شہریوں کو معیاری پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر ہوتاکہ ایندھن کے بے جا استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی آلودگی کو کم کرنے میں بھی مدد ملے۔ اس لئے میٹرو بسوں کی تعداد بڑھائے جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد مستفید ہو سکیں۔ آپ کا جڑواں شہروںمیں گرین ، بلیو اور اورنج لائن میٹرو شروع کرنے کا قدم بہتر سفری سہولیات کی فراہمی میں پہلا قدم ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن