ہندو کی ارتھی میں کیڑے پڑیں

چار بارعالمی ایوارڈ جیتنے والے ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایکسپرٹ اننتھا نارائن سیمیری ملاقات ٹویٹر پر ہوئی، وہ ورلڈ کپ میں پاک بھارت کرکٹ میچ میں بھارت کی متوقع جیت بار ے بہت پرجوش تھا، میں نے کہا سوچنا بھی نا، نارائن بولا کہاں راجا بھوج، کہاں گنگو تیلی، آج کرکٹ سے لیکرسوشل میڈیا تک ہر شعبے میں ہم نے پاکستان کو شکست دیدی ہے، انگریزی سے پیدل پاکستانیوں سے تکنیکی تعلیم تو دلی جتنی دور ہے، یہ شعر علامہ اقبال نے تم مسلمانوں کی ترقی کیلئے لکھا تھا، محبت مجھے ان جوانوں سے ہے، ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ تمہارے ملک کے نوجوان پچیس 25 لاکھ روپے دیکر یونان کے ساحلوں پر مارے جارہے ہیں‘ آج بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 526 ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کے صرف 12 ارب ڈالر ہیں، پاکستان نے کیا خاک ترقی کرنی ہے جسے تین ارب ڈالر کیلئے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنی پڑتی ہے۔
 نارائن کی یہ حقیقی تنقید ہتھوڑا بن کر لگی جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ یہ سچ ہے کہ مادری زبان میں تعلیم پانیوالے مغربی، چینی، روسی اور بھارتی نوجوانوں نے واقعی ستاروں پر کمند ڈال دی ہے۔ حقائق چیخ چیخ کر بول رہے ہیں کہ آن لائن بزنس کرنیوالی چار بڑی کمپنیوں نے کمائی کے نئے ریکارڈ قائم کر دیئے ہیں۔ 
پچھلے چار سالوں کی نسبت2021ء تک کمپنی ایمازون کی کمائی 177ارب ڈالر سے بڑھ کر 469 ارب ڈالر ہو گئی۔ کمپنی ایپل کی کمائی 229 ارب ڈالر سے 365 ارب ڈالر ہو گئی۔
 گوگل کی کمائی 109 ارب ڈالر سے بڑھ کر 256 ارب ڈالر ہو گئی اور فیس بک کی کمائی 40 ارب ڈالر سے بڑھ کر 117 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے،کورونا کے بعد کی اس صدی میں آمدنی بڑھانے کے متمنی تاجر آن لائن منتقل ہوچکے ہیں جو معجزہ نہیں باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہوا۔ اب زیادہ سے زیادہ کمائی کرنے کی عالمی جنگ کسی میدان میں نہیں بلکہ خلاء میں (بذریعہ انٹرنیٹ) لڑی جارہی ہے، آئندہ دس سالوں میں آج کی سینکڑوں روایتی نوکریاں اور کاروبار ختم ہو جائیں گے۔ 
کانٹینٹ تخلیق کرنا اور ڈیٹا سائنس مستقبل کے دو اہم سبجیکٹ ہیں۔ مغرب، روس اور چین کے بعد بھارتی اور بنگلہ دیشی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ان شعبوں میں نہ صرف اپنی قابلیت منوا رہی ہیں بلکہ گھر بیٹھے بھاری بھرکم ڈالر کما رہی ہیں جبکہ ہم پاکستانی والدین آج بھی اپنے بچوں کو روایتی ڈاکٹر، انجینئر بنا کر مزدوری کرنے اور فزیکل کاروبار کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔ پچاس 55 سال کے وہ پاکستانی والدین جنھیں اوبر ٹیکسی بک کرنی اور ایزی پیسہ سے رقم بھیجنی نہیں آتی انھیں انٹر نیٹ کی کمائی بارے قائل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے، پاکستانی والدین کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ حقیقی کاروبار اور نوکری وہی ہے جو کسی فیکٹری، دفتر، ہسپتال یا کسی سائیٹ پر کام کرنے کی ہے۔ 
بطور میڈیا ٹرینر مجھے بچوں کے ساتھ ساتھ انکے والدین کو بھی سمجھانے میں شدید دقت پیش آتی ہے۔ بیس سال پہلے کہا گیا تھا اب وہی کاروبار چلے گا جو انٹرنیٹ پر ہوگا، آج میری پیش گوئی ہے کہ اگلے دس سالوں میں صرف وہی کاروبار بچے گا جو آن لائن ہوگا۔
 گوگل سے لیکر ہر غیرملکی ڈیجیٹل کمپنی تک میں ہندو نے غلبہ حاصل کر لیا ہے، لاکھوں بھارتی آرگینک ویڈیوز بناکر صارفین کو انٹرنیٹ پر انگیج کرکے لاکھوں ماہانہ کما رہے ہیں، میرے ملک کے بچے انٹر پرینور بن کر دوسروں کو نوکریاں دینا چاہتے ہیں، نوجوان ڈیجیٹل میڈیا فیس بک، یوٹیوب پر انگیجنگ تکنیکی اور معلوماتی ویڈیوز بناکر گھر بیٹھے ماہانہ لاکھوں روپے کمانا چاہتے ہیں لیکن ہم پاکستانی والدین اپنے بچوں کو روایتی نوکریاں کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ جب یورپ اور مغرب میں ہر بڑی نوکری پر، قابلیت پر کوئی بھارتی منتخب ہوتا ہے تو یہی والدین کہتے ہیں دفع کرو ہندو ہمیشہ سازش کرکے آتا ہے اسکی کمائی حرام کی ہے۔ اسکی ارتھی میں کیڑے پڑیں گے۔
 آج پاکستانی والدین کی اکثریت اس ضعیف سوچ پر ٹکی ہوئی ہے کہ ہماری قسمت کی روزی ہمیں مل کر رہے گی جبکہ سورہ اخلاص میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ اللہ محنت کشوں کا دوست ہے یعنی جو جتنی جستجو و جدوجہد کریگا وہ اللہ کے اتنا ہی قریب ہوگا، اور جو اللہ کے جتنا قریب ہوگا وہ اتنا ہی بڑا انعام بھی پائیگا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...