یومِ اقبال کے موقع پر توشہ خانہ حضور نظام کی طرف سے ایک ہزار روپے کا چیک بطور تواضع موصول ہونے پرعلامہ اقبالؒ نے انھیں یہ چار اشعار جواب میں لکھ بھجوائے تھے ۔ کالم کی تنگ دامانی اپنی جگہ لیکن شاعر مشرق کے ان چاروں اشعار کو لکھے پڑھے بغیر بات آگے نہیں بڑھتی :
تھایہ اللہ کا فرماں کہ شکوہِ پرویز
دو قلندرکو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات
مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر
حسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات
میں تو اس بارِ امانت کو اٹھاتا سرِ دوش
کامِ درویش میں ہرتلخ ہے مانندِ نبات
غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہااس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات
1933-34ء میں مسلم لیگ کے تن نیم جاں میں زندگی کی روح یو پی کے جاگیرداروں نے پھونکی تھی ۔ تھانہ کچہری سے آگے کی سیاست کسی جاگیردار کے بس کی بات نہیں۔ جاگیردارانہ مفادسے آگے ان کی سوچ بڑھتی ہی نہیں۔ مسلم لیگ کا ہمیشہ سے مزاج جاگیردارانہ ہی رہا۔ اسی باعث پنجاب مسلم لیگ کی صدارت باوجود خواہش کے حضرت علامہ اقبالؒ کے حصے میں نہ آسکی ۔ حکومت کچھ اور شے ہے اقتدار کچھ اور شے ۔ آج کے مقبول ترین سیاسی رہنما عمران خان ساڑھے تین برس وزیر اعظم پاکستان رہ چکنے کے بعد انکشاف کرتے ہیں کہ سبھی اختیارات ان کے پاس نہیں تھے۔ حضور، اگر اختیارات نہیں تھے تو وہ حکومت چھوڑی کیوں نہیں؟ لیکن اکیلے عمران خان ہمارے دوسرے سیاستدانوں سے وکھرے چال چلن کا مظاہرہ کیسے کر سکتے تھے؟ ہمارے سبھی سیاسی رہنمائوں نے ملک کے اصلی حکمرانوں کی ’خدائی کی زکوٰۃ‘قبول کر رکھی ہے۔ آج پاکستان کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں میں کوئی بھی ملک کے اصلی حکمرانوں کے اختیارات کم کرنے کا خواہاں نہیں۔ سبھی اسی تنخواہ پر کام کرنے کو تیاربیٹھے ہیں۔
بھٹو کے دور کے اسپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی خاں نے اپنی یاد داشتیں لکھی ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ میں نے کتاب کے عنوان کے لیے خاصی سوچ بچار کی۔ میں ملکی احوال و آثار کی صحیح ترجمانی کے لیے کسی ایسے عنوان کا متلاشی تھا جو کسی شعر کی زبان میں ہو ۔ اچانک میرے ذہن میں غالب کا یہ شعر تازہ ہوگیا:
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
اور اسی شعر میں تحریف کر کے کتاب کا عنوان رکھ لیا گیا۔
اگرچہ مسلم لیگ 1906ء میں ڈھاکہ میں نواب آف ڈھاکہ کے ہاں ہی قائم کی گئی لیکن پھر بھی مشرقی پاکستان مسلم لیگ کا مزاج نوابانہ نہ تھا۔ وہاں کی مجموعی قیادت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اسی لیے وہ ہمارے اور ہمارے حکمرانوں کے ساتھ نہ چل سکی ۔مشرقی پاکستان سے سہروردی خالی جیب مرے تو اس کی اکلوتی بچی کی گزر بسر کے لیے حکومت کو وظیفہ مقرر کرنا پڑا۔ صرف پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچا ہے، عوام نہیں۔ بجلی کا بل ان کے لیے ہر ماہ موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یہاں فراواں صرف بھوک ہے۔ عدم اطمینان اور عدم تحفظ کا احساس۔ وزیر اعظم شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ’حلوہ لڈو پیڑے‘ نہیں۔ وہ عوام کو پوری بات نہیں بتا رہے۔ وہ یہ بات چھپا رہے ہیں کہ حکومت جیسی بھی ہو’حلوہ لڈو پیڑے‘ ہی ہوتی ہے ۔
آپ گوجرانوالہ شہر میں داخل ہوں تو کامونکی ٹول پلازہ کے قریب چیانوالی کے مقام پر گندگی کا ایک ڈھیر نہیں، پہاڑ آپ کا سواگت کرے گا۔ ماہرین تحقیق و تفتیش کریں تو یہاں ہر بیماری کے جراثیم موجود پائیں گے۔ پچھلے ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کا دورۂ گوجرانوالہ تھا۔ اس ڈھیر سے چند کلو میٹر پرے کامونکی سے جی ٹی روڈ دھونے کا آغاز کر دیا گیا۔ جہاں شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیںوہاں وزیر اعظم کی آمد پر صاف شفاف پانی سے جی ٹی روڈ دھوئی جا رہی تھی۔ کھانے کے برتن اور انھیں پیش کیے جانے والا پھل فروٹ منرل واٹر سے خوب دھویاگیا لیکن’ نہاتی دھوتی رہ گئی، منہ تے مکھی بہ گئی‘۔ اچانک وزیراعظم کا دورہ ملتوی ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنی سیٹ پکی رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ چند برس پہلے ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر نے وزیراعظم یا شاید وزیراعلیٰ کے دورے کے موقع پر ڈپٹی کمشنر کے حکم پر واش روم کا کموڈ دھونے سے انکار کر کے تبادلہ اور سرزنش کی سزا پائی تھی۔ ملک میں صرف ایک ادارہ ہی کام کر رہا ہے۔ اب وہ ساہیوال ، بھکر اور خوشاب کا ایک لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ آباد کرنے نکلا ہے ۔ آئی ایم ایف کے وفد کی چیف ناتھن پورٹر سے عمران خان نے اپنی ملاقات میں آئی ایم ایف پروگرام کی کسی شرط سے اختلاف نہیں کیا۔ دوسری حکمران جماعتوں کی طرح انھیں بھی آئی ایم ایف کی کڑی عوام دشمن شرائط سے مکمل اتفاق تھا۔ انھیں صرف الیکشن چاہیے کہ یہی تبدیلی نہیں حکومت کا راستہ ہے ۔ ایک سیاستدان کو صرف حکومت چاہیے۔ چاہے وہ جیسی بھی ہو۔ حکومت جیسی بھی ہو ’حلوہ لڈوپیڑے ‘ ہی ہوتی ہے ۔