ورلڈ جونیئر سکواش چیمپین شپ پاکستان کے حمزہ نے جیت لی۔
یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ پاکستانی کھلاڑی حمزہ خان نے ایک بار پھر ورلڈ سکوائش چیمپئن شپ (جونیئر) میں بھرپور اور زبردست کھیل کا مظاہر کرتے ہوئے فائنل جیت لیا۔ پوری قوم کی نظریں ان پر لگی ہوء تھیں۔ خدا کے فضل اور بھرپورمحنت سے فائنل جیت کر عالمی سطح پر ایک بار پھر انہوں نے پاکستان کا پرچم بلند کیا۔ یاد رہے پاکستان نے یہ اعزاز 37 سال بعد دوبارہ حاصل کیا ہے پہلے 1986 میں جان شیر خان نے یہ حاصل کیا تھا۔ ماضی قریب کی بات ہے۔ صدیوں پرانا قصہ نہیں عالمی سکوائش میں پاکستان کا طوطی بولتا تھا۔ ہمارے کھلاڑیوں کا نقارہ بجتا تھا۔ ہاشم خان، جہانگیر خان اور جان شیر خان برسوں عالمی چیمپئن رہے۔ انہیں آج بھی ایک لیجنڈ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان ستاروں اور ان جیسے کئی اور پاکستانی کھلاڑی سکوائش کے ماتھے کا جھومر تھے۔ مگر جو سورج چڑھتا ہے اسے ڈوبنا بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ کچھ اپنوں کی مہربانی کچھ اقربا پروری اور سفارش نے اس کھیل کو بھی نہیں چھوڑا۔ اچھے اچھے کھلاڑی دل برداشتہ ہو گئے۔ مگر اب ایک بار پھر ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے ازخود زبردست محنت کر کے اس میدان میں کامیابیوں کا جو سفر شروع کیا ہے وہ رنگ لا رہا ہے۔ پہلے جونیئر اور اس کے بعد عالمی سکوائش چیمپئن شپ میں بھی پاکستان کا پرچم جلد تادیر لہراتا رہے بقول شاعر
زمین کی گود رنگ سے اْمنگ سے بھری رہے
خدا کرے یہ کہکشاں یونہی سجی رہے
پوری قوم کی دعائیں حمزہ خان کے ساتھ تھیں جنہوں نے مصر کے کھلاڑی محمد زکریا کو فائنل میں شکست دی۔
٭٭٭٭٭
اسسٹنٹ ، ڈپٹی اور ایڈیشنل کمشنرز کے لیے اربوں روپے کی قیمتی گاڑیوں کی خریداری
اس وقت یہ موضوع ہاٹ کیک کی طرح ہر طرف چھایا ہوا ہے۔ اتنی قیمتی لش پش کرتی نئی گاڑیاں دیکھ کر تو بڑے بڑے سرکاری ملازمین ہی نہیں وزیروں اور مشیروں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا ہے۔ عوام کی تو بات ہی نہ کریں وہ تو جل بھن کر کباب ہو گئے ہیں۔ ان بے چاروں کو تو لگتا ہے کسی نے جلتے توے پر بٹھا دیا ہے۔ ایک طرف یہ حال ہے کہ لوگوں کو روزمرہ کی اشیاء دستیاب نہیں۔ قیمتوں کی گرانی عوام کو کند چھری بن کر بیدردی سے ذبح کر رہی ہے۔ دوسری طرف بیوروکریٹس کے لیے فرعون و نمرود جیسی تمام آسائشیں وافر مقدار میں دستیاب ہیں اور ان میں مزید اضافہ کر کے نجانے کیوں خوش کیا جا رہا ہے۔ آخر یہ لوگ سوائے ٹھنڈے کمروں ، گھروں اور ان ٹھنڈی گاڑیوں میں بیٹھ کر کرتے ہی کیا ہیں۔ جو کام ان کے کرنے کے ہیں وہ تو ان سے ہوتے نہیں۔ یہ عوام کے خادم ہیں انہیں عوام کی خدمت کرنی ہوتی ہے انہیں مشکلات سے نکالنا ہوتا ہے مگر یہ مخدوم بن کر خدمتیں کرواتے پھرتے ہیں۔ ان قیمتی گاڑیوں میں بیٹھ کر درجن بھر مسلح گارڈز کے ساتھ جب سے نکلتے ہیں تو دیکھنے والے دور سے ہی سب اچھا کی رپورٹ دیتے ہیں۔ ورنہ عام آدمی کو تو ان کے دفتر ، گھر اور گاڑی کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا۔ ان جیسے عوام کے خادم افسروں کے لیے تو ایک پوٹھوہار جیپ ہی کافی ہے اس پر بیٹھ کر انہیں بازاروں، سڑکوں ، مارکیٹوں اور شہر کے دورے کرنے چاہیے تب انہیں پتہ چلے گا کہ کتنے بیسوں کا سو بنتا ہے۔ ان خواص کو عام بنا کر ہی ہم عام آدمی کے مسائل حل کر سکیں گے ورنہ یہ یونہی ان گاڑیوں میں بیوی بچوں سمیت اعلیٰ ہوٹلوں میں ڈنر مہنگی مارکیٹوں میں خریداری اور پرفضا مقامات پر صرف سیر کے لیے جاتے رہیں گے وہ بھی حکومت کے خرچ پر۔
٭٭٭٭٭
ڈیڑھ سالہ بچے پر 6 من گندم چوری کا مقدمہ
اتنابچہ تو اپنے لیے کہیں سے کسی کا فیڈر یعنی دودھ پلانے والی بوتل یا چوسنی ہی چرا لے تو اسے ہم کامیاب واردات کہہ سکتے ہیں۔ حالانکہ اس عمر میں بچوں کو ان باتوں کا شعور ہی نہیں ہوتا کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے۔ مگر ہماری پولیس کے حسن کارکردگی میں یہ کرشمہ سازی بھی شامل ہے کہ وہ مردے کو زندہ، اندھے کو دیکھتا، بہرے کو سنتا اور گونگے کو بولتا دکھانے اور بنانے میں ماہر ہے۔ سو اسی قاعدے اور کلیہ کی رو سے اگر 80 سالہ معذور بابا ڈکیتی اور زیادتی کیس میں دھرا جا سکتا ہے تو اس ڈیڑھ سالہ بچے پر ا یسا کیس کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ تو بڑے فخر کی بات ہے کہ ہمارے اس ہونہار بروا نے اس بالی عمریا میں ہی چکنے چکنے پات دکھا نا شروع کر دئیے۔
اس بچے پر الزام ہے کہ اس نے اپنے باپ اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر 6 من گندم چرائی۔ ہو سکتا ہے ڈیڑھ سالہ ملزم کلاشنکوف لے کر پہرہ دیتا رہا ہو اور گندم دوسروں نے چرائی یا پھر یہ گندم لوڈ کرانے میں بھی اس بچے نے مدد کی ہو۔ دکھ ہوتا ہے ایسے مقدمات کے اندراج پر، کیا مقدمہ درج کرنے والے اتنے ہی گئے گزرے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ مقدمہ ملزم کون ہے اس کی عمر کیا ہے۔ بہرحال اب بات میڈیا میں آ گئی ہے تو امید ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام مقامی پولیس کی اس اعلیٰ کارکردگی کا ضرور نوٹس لیں گے اور اس نوعمر بچے پر سے چوری کا داغ مٹا کر اس پر مقدمہ درج کرنے اور کروانے والوں سے حساب ضرور لے گی۔
٭٭٭٭٭
نواز شریف اور مریم بھی دبئی پہنچ گئے، بلاول اور زرداری پہلے سے موجود ہیں
لیجئے اپوزیشن ابھی تک لندن پلان کے شور و غوغا سے فارغ نہیں ہوئی تھی کہ اب ان کے پاس ایک اور موضوع آ گیا۔ اب وہ دبئی پلان کے نام سے ایسا طوفان اٹھائے گی کہ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کو لگ پتہ جائے گا۔ اوپر سے اپوزیشن کا میڈیا سیل بھی جوبن پر ہے۔ ایک نقطہ سے وہ محرم کو مجرم بنانے کے فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ اس میدان میں ان کو مات نہیں دی جا سکتی۔ اب دبئی میں حکومتی اتحاد کی ان بڑی دو جماعتوں کے چار بڑوں کی بیٹھک میں کیا طے ہوتا ہے۔ فی الحال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی بات پر مولانا فضل الرحمن بھی رنجیدہ ہیں، ان کی ناراضگی بھی بجا ہے کہ پی ڈی ایم کا سربراہ ہونے کے باوجود وہ ان ملاقاتوں سے باہر ہیں۔ کیوں ایسا کیوں ہے کیا پی پی پی اور نون لیگ بالائے بالا کوئی متبادل پروگرام تو نہیں بنا رہے۔ اگر ا یسا ہے تو یاد رکھیں مولانا فضل الرحمن نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی۔ وہ اپنے ہم خیالوں کے ساتھ مل کر شریف اور زرداری کے خوابوں اور خیالوں کو منتشر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لگتا ہے عبوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سب اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ بجاتے نظر آئیں گے۔ کیا معلوم اسلامی جماعتوں پر بھی اتحاد کا جنوں سوار ہو جائے اور وہ بھی اپنا اتحاد بنا لیں۔ یوں ایک زبردست انتخابی مہم شروع اور معرکہ برپا ہو سکتا ہے۔ جس میں نئی اور پرانی سیاسی جماعتیں دھمال ڈالتی نظر آئیں گی اور غریب عوام کا سیاسی پارہ بھی خودبخود ہائی ہو جائے گا۔
یوں ’’جس دئیے میں جاں ہے باقی وہ دیا رہ جائے گا ‘‘ اس کا پتہ بھی چند ماہ بعد اگر الیکشن ہوئے تو ہو جائے گا۔ اس وقت تک عوامی مسائل غائب اور الیکشن مہم عروج پر رہے گی۔ سو اس وقت کا انتظار کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭