یہ درس کربلا کا ہے

فیض عالم:قاضی عبدالروف معینی

دشت کربلا میں نواسہ رسول ، محسن انسانیت کی عظیم الشان شہادت تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ عالم کا افسوس ناک واقعہ۔اس دل دہلا دینے والے سانحہ نے پور ی کائنات کو مغموم کردیا ہے۔ہر سال ماہ محرم کا پہلا عشرہ امام عالی مقام کی شہادت کے غم کو تازہ کر دیتا ہے۔ 
آنکھوں کے ساحلوں پہ ہے اشکوں کا اک ہجوم 
شاید غم حسین کا موسم قریب ہے
امام عالی مقام نے معرکہ حق و باطل میں جس بہادری اور صبر سے تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کیاوہ ایک لازوال داستان ہے۔آپ نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن باطل کی قوتوں کے سامنے جھکے نہیں۔
شاہ است حسین پادشاہ است حسین 
دین است حسین دین پناہ است حسین 
سر داد نداد دست در دست یزید 
حقا کہ بنائے لا الہ است حسین

واقعہ کربلا ایک سانحہ ہی نہیں ایک عظیم درس گاہ ہے جوبشریت کے لیے بہت سے اسباق لیے ہوئے ہے۔ صاحب فکر و نظر کے لیے یہ اسباق سرمایہ ہیں۔واقعہ کربلا حریت و آزادی کا درس دیتا ہے اور ظلم و استبداد کے سامنے ڈٹ جانے کی تعلیم دیتا ہے۔دنیا بھر کے مظلوموں کو ثابت قدمی کے ساتھ ظالموں کے آگے ڈٹ جانے کا حوصلہ دیتا ہے۔حق اور صداقت کے لیے کھڑے ہو جانے کی ہمت بھی دیتا ہے۔اگرکسی نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فلسفہ سمجھنا ہو تو سانحہ کربلا کا مطالعہ کر لے۔امام عالی مقام نے واضح کر دیا کہ 
جھوٹ تعداد میں کتنا ہی زیادہ ہو سلیم
اہل حق ہوں تو بہتر(72) بھی غضب ہوتے ہیں
بہتر( 72) شہدائ￿ کی شہادت نے تاریخ کا فیصلہ بھی سنا دیا کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد 
یزید کا نام ونشان مٹ گیا لیکن امام عالی مقام کی شہادت کوچودہ سو سال گزر گئے آپ کا نام اور آپ کی تعلیمات آج بھی اسی طرح زندہ ہیں۔آپ شجاعت، بہادری اور حریت کا استعارہ بن چکے ہیں۔ آپ دنیا بھر کے حریت پسندوں کے لیے مینارہ نور ہیں۔دنیا کے ہر مذہب کے رہنما?ں ، دانشوروں اور حریت پسند وں نے آپ کی بہادری ، حکمت عملی اور شجاعت کا بھر پور انداز میں اعتراف کیا اور خراج تحسین پیش کیا۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور واقعہ کربلا کے حوالے سے دنیا بھر کے مشاہیر اور سکالرز کی حقائق پر مبنی آرائ￿ کو اکٹھا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ان آرائ￿ کو پڑھیں توایسے محسوس ہوتا ہے کہ حسین سب کے ہیں۔
انسان کو بیدا ر تو ہو لینے دو 
ہر قوم پکارے گی ، ہمارے ہیں حسین

برصغیر کے رہنما مہاتما گاندھی نے اعتراف کیا کہ ’’اسلام بزور شمشیر نہیں پھیلا بلکہ اسلام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی سے پھیلا۔میں نے آپ سے یہ سبق سیکھا کہ مظلومیت کے دور میں کامیابی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے۔‘‘
مشہور سکالر و ناول نگار چارلس ڈکسن نے واقعہ کربلا کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھا کہ’’میں نہیں سمجھتا کہ کہ امام حسین نے کسی دنیاوی لالچ اور مقصد کے لیے کربلا کی طرف سفر کیا۔اگر ایسا ہوتا توتو آپ سارا خاندان خصوصا عورتوں اور بچوں کو کیوں دشت کربلا میں ساتھ لاتے۔کربلا میں بچوں اور خواتین کے ساتھ آنایہ ثابت کرتا ہے کہ آپ نے فقط اسلام اور رضائے الہٰی کے لیے یہ قربانی دی۔‘‘
معروف مصنف اور مورخ تھامس کارلائل نے اپنی کتاب ہیروز اینڈ ہیروز ورشپ میں لکھا کہ’’کربلا کے المیہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ حضرت امام حسین اور آپ کے ساتھی اللہ تعالی پر کامل یقین رکھتے تھے۔آپ نے اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا کہ معرکہ حق و باطل میں عددی برتری کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔بہادری کا جو درس واقعہ کربلا سے ملتا ہے کسی اور سے نہیں۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اما م عالی مقام کی لازوال قربانی نے قوموں کی بقا اور جہاد زندگی کے لیے ایک ایسی شمع روشن کی جو رہتی دنیا تک روشن رہے گی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دورکے مسلمان اس شمع کی روشنی سے محروم ہیں۔یہ اندھیرے میں بھٹک رہے ہیں آسمان نے ان سے آنکھیں پھیر لیں ہیں اور زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔آج کے مسلمان بزدلی کا شکار ہو چکے ہیں۔ان کے قلوب و اذہان مکمل طور پر غلام بن چکے ہیں۔ان کے کرتوتوں نے ان کو غیروں کا محتاج بنا دیا ہے۔غیرت اور حمیت ان سے رخصت ہوچکی ہے۔اپنے پروردگار کے ڈر کی بجائے یہ کئی دنیاوی بتوں سے خوف زد ہ ا ور لرزاں ہیں۔حالانکہ 
 یہ درس کربلا کا ہے
کہ خوف بس خدا کا ہے

ای پیپر دی نیشن