چھپے دشمن اور ڈیجیٹل دہشت گردی 

تحریر انور خان لودھی
ہاتھ میں سمارٹ فون پکڑے کوئی بھی شخص اس پر دستیاب سہولتوں کا درست یا غلط استعمال کر سکتا ہے۔ انٹرنیٹ کے توسط سے دنیا بھر سے جڑا ہر فرد کچھ بھی شئیر کردے تو اس کی رسائی کل عالم تک ہے۔ ماہرین ابلاغیات اس ' رسائی' کا بغور جائزہ لیتے رہتے ہیں ، اس معاملے پر وسیع تر تحقیق جاری ہے، نئی تھیوریز بنائی جا رہی ہیں۔ اظہار خیال کی آزادی کے طرف دار اور علم بردار جہاں رسائی کی شدت سے حمایت کرتے ہیں وہاں اس چھوٹ ہر تنقید کرنے والے بھی کم نہیں۔ متعدد ممالک سوشل میڈیا پر اپنے شہریوں کی پہنچ محدود کر چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا تک رسائی کو 'مناسب' کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور شتر بے مہار کو مہار ڈالنے کی سعی ہو رہی ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان کی مسلح افواج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے ایک بار پھر ڈیجیٹل دہشتگردی کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر احمد شریف چوہدری عہدے کے لحاظ سے لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ ان کے چہرے پر طاری گہری سنجیدگی بتا رہی تھی کہ معاملہ از حد سنجیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ سرگرم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جس طرح ایک دہشتگرد ہتھیار پکڑ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دہشتگرد موبائل، کمپیوٹر، جھوٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے ذریعے اضطراب پھیلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔‘ فوج کے ترجمان نے کہا کہ کسی ’ڈیجیٹل دہشتگرد‘ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہوتی ہے لیکن شدت پسندوں اور ان میں یہ قدر مشترک ہے کہ ’دونوں کا ہدف فوج ہے۔ اور یہ کہ’ڈیجیٹل دہشتگرد فوج، فوج کی قیادت، فوج اور عوام کے رشتے کو کمزور کرنے کے لیے فیک نیوز کی بنیاد پر حملے کر رہا ہے۔‘ احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشتگرد کو قانون اور سزائیں ہی روک سکتی ہیں۔ ’تواتر سے فوج اور دیگر اداروں کی قیادت کے خلاف بے ہودہ بات چیت کی جاتی ہے، فیک نیوز پھیلائی جاتی ہے۔‘ پریس کانفرنس کے آخر میں انھوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشتگردوں کو نہ روکا گیا تو انھیں مزید سپیس ملے گی۔ ’وہ غیر قانونی عناصر جو اس ملک کو سافٹ ریاست بنانا چاہتے ہیں، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ (ملک کے) سنجیدہ مسائل کو بھی سیاست کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ عزم استحکام اس کی مثال ہے۔ 22 جون کو ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس ضرورت کا اظہار کیا کہ ملک میں جامع انسداد دہشتگردی کی مہم کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے اسی اعلامیے کے حوالے سے کہا کہ ملک میں انسداد دہشتگردی مہم کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور قانون سازی کی جائے گی۔ انھوں نے سمگلنگ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا ایک اہم مقصد دہشتگردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں بے نامی پراپرٹیز، سمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ذریعے دہشتگرد آپریٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم ہر گھنٹے چار سے پانچ انٹیلیجنس کی بنیاد پر انسداد دہشتگردی آپریشن کر رہے ہیں۔‘ پاکستان فوج کی جانب سے ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ کی اصطلاح اس سے قبل رواں برس مئی میں کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی استعمال کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کا ’واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلانا اور قومی اداروں کے درمیان اختلافات‘ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ڈیجیٹل دہشت گردی کی تعریف کیا ہے اور کس بنیاد پر کسی شخص کو ڈیجیٹل دہشت گرد‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا دنیا کے دوسرے ممالک میں ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات جاننا اہم ہے۔ دنیا بھر میں ’سائبر ٹیرارزم‘ (سائبر دہشت گردی) کی اصطلاح کا استعمال اکثر کیا جاتا ہے۔ ڈوروتھی ڈیننگ مشہور امریکی محقق ہیں اور سائبر سیکیورٹی کے امور پر مہارت رکھتی ہیں۔ ڈیننگ کے نزدیک سیاسی یا معاشرتی مقاصد کے حصول کے لیے کمپیوٹرز یا ان سے منسلک نیٹ ورک پر کسی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے حملے سائبر ٹیرارزم کہلاتے ہیں۔ ایک سوال اور بھی اہم ہے کہ کیا آن لائن پروپیگینڈا یا غلط معلومات پھیلانے کو ’دہشت گردی‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کچھ ماہرین کے نزدیک ’پروپیگنڈا اور ڈِس انفارمیشن کو ڈیجیٹل دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دہشت گردی کا مفہوم بالکل مختلف ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی اصطلاح کا استعمال افراد یا گروہوں کو برا دکھانے کے لیے کیا جاتا ہے اور یہ کہ سیکیورٹی کی تکنیکی زبان میں کسی بھی جرم کو دہشتگردی اس وقت تک قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک اس کے پیچھے کوئی کوئی نظریہ نہ ہو۔ یعنی جب آپ نظریے کی بنیاد پر کوئی جرم کرتے ہیں تو اسے دہشتگردی کہا جاتا ہے۔ یہ دیکھنا بھی بے جا نہیں ہے کہ کیا دنیا کے دوسرے ممالک میں ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے؟ برطانیہ میں واقع تھنک ٹینک ’اسلامک تھیولوجی آف کاو¿نٹر ٹیرارزم‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاران جعفری رائے دیتے ہیں کہ ڈیجیٹل دہشت گردی ایک انتہائی غیر واضح اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ مغربی لبرل جمہوریتوں میں ریاست یا فوج پر کی جانے والی تنقید کو آزادی اظہار رائے کے زمرے میں دیکھا جاتا ہے۔ ہاں اگر کسی سرکاری افسر کو اس کے مذہب، فرقے یا قومیت کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو اسے نفرت انگیزی قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی اگر لوگوں کو   ا کسایا جائے کہ وہ فوج پر حملہ کریں تو ایسے میں ملزمان پر دہشتگردی سمیت متعدد دفعات لگائی جا سکتی ہیں۔ دنیا ڈیجیٹل سہولتوں کے غلط استعمال کو دہشت گردی مانتی ہے یا نہیں۔ پاکستان کو اپنے معروضی حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے۔ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنا یے۔ سوشل میڈیا کے سیل رواں کے آگے بند باندھنا شاید ممکن نہ ہو، اسے درست راہ پر ضرور ڈالا جا سکتا ہے۔ شہریوں کو سوشل میڈیا کے استعمال کی اخلاقیات دینی ہوں گی۔ ان اصولوں کو سکولوں کالجوں میں نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہئے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ تر نوجوان نسل مصروف کار نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کو یہ اعتماد دینا ہے کہ ادارے آپ کیلئے ہیں۔ اداروں کو بھی اعتماد دینا ہے کہ قوم آپ کی پشت پر کھڑی ہے۔ سوشل میڈیا کا سب سے بڑا دھوکا اور سراب یہ ہے کہ اس کے یوزر کی شناخت اور لوکیشن غیر یقینی ہوتی ہے۔ اس دھندلکے سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے۔ فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں میں اکثر اپنوں کے بھیس میں دشمن ہوں گے۔ ہمیں دشمن کو اور ڈیجیٹل دہشت گردوں کو پہچاننا ہے۔ ادارے ہیں تو ریاست ہے۔ ریاست ہے تو ہم ہیں۔ رہے نام اللہ کا۔ پاکستان زندہ باد

ای پیپر دی نیشن