راشدہ ماہین ملک: ملک شاعری

Jul 24, 2024

ڈاکٹر مقصود جعفری

ڈاکٹر مقصود جعفری

راشدہ ماہین ملک صاحبہ حسب ونسب کے اعتبار سے تو ملک ہیں مگر دنیائےشاعری کی وہ ملکہ ہیں۔ اِسی لیے میں نے انہیں ملک? شاعری کا خطاب دیا ہے۔ وہ سوزِ دروں سے لبریز، حسنِ بروں سے کیف انگیز اور بطورِ شاعرہ دل آویز ہیں۔ وہ صرف شاعرہ ہی نہیں ایک دانشور بھی ہیں جن کی شاعری غمِ ہجراں کی کسک اور غمِ دوراں کی مہک کا حسین امتزاج ہے۔ آپ کا چہرہ متبسم اور شاعری مترنّم ہے۔ آواز لحنِ داودی کی طرح دلفریب اور سازِ شاعری سراپا درد و شکیب ہے۔ آپ وفاقی اردو یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسرہیں۔ آپ کی شاعری پرتحقیقی مقالہ جات لکھے گئے ہیں۔ اس وقت تک آپ کے دو شعری مجموعے “ باغ” اور “ شال میں لپٹتی رات” شائع ہو کے اہلِ علم و ادب سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ “ دل والی دلّی میں” آپ کا سفر نامہ ہے۔ علامہ اقبال پر Iqbal: The Spiritual Father of Pakistanاِن کی اقبال فہمی اور اقبال شناسی کی آئینہ دار ہے۔سرائیکی، پنجابی اور اردو میں ان کی شاعری دلپذیر و بینظیر ہے۔وہ باوقار، وضع دار، سلیقہ شعار اور شعلہ رخسار ہیں۔ ان کی غزل روایت و جدّت کا سنگم ہے۔ ان کی ایک جدید طرز کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔ کہتی ہیں 
کہہ رہا ہے کس رعونت سے وہ دل پامال کر کے 
پھینک دیتے ہیں “ ٹشو پیپر” کو استعمال کرکے 
دل مہکتا تھا جہاں میرا، یہی وہ شہرِ گل ہے 
مَیں گزرتی ہوں یہاں منہ پہ اب رومال کر کے 
کاٹ دیتا ہے وہ پر اڑتے پرندوں کے ہوا میں 
چھوڑ دیتا ہے وہ سڑکوں پر شکستہ حال کر کے 
اِس غزل میں نئی ڈکشن ہے۔ “ ٹشو پیپر”، “ رومال” اور “ سڑکوں” کے الفاظ روایتی غزل کے مزاج کے برعکس ہیں۔روایتی غزل میں جہاں “ بلبل”کا لفظ اور “ صیاد” کا لفظ ایک خاص مخفی مقصد کے لیے استعمال ہوتے تھے اور پہلو بچا کر اظہارِ مدّعا کیا جاتا تھا وہاں اب نئے الفاظ اور نئی تراکیب نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق معرضِ وجود میں آ گئی ہیں۔ راشدہ ماہین جب “ ٹشو پیپر” کا لفظ استعمال کرتی ہیں تو اسے بقولِ غالب گنجین معنی سمجھا جاﺅ۔ غالب نے بھی لفظ کی معنویّت، جدّت، حدّت اور قوّت کے بارے میں یوں کہا تھا 
گنجین معنی کا طلسم اس کو سمجھئیے جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آﺅ
راشدہ ماہین کی شاعری میں کئی ایسے روایتی غزل کے برعکس نئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو زندگی کی تلخ حقیقتوں کے غمّاز ہیں۔ اگر ہم صرف لفظ “ ٹشو پیپر” پر ہی اکتفا کریں تو اسِ کی تفسیر اور وضاحت کے لئے ایک مقالہ بھی کم ہے۔ نئی بے مرّوت تہذیب اور طوطا چشم سیاسی و سماجی نظام میں ہر شخص دوسرے شخص کو “ ٹشو پیپر” ہی سمجھتا ہے۔ آپ کی شاعری میں روایتی طرز کی غزلیات بڑی رومانوی شدّت کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ محّبت انسان کی سرشت میں ہے۔ یہ شاعروں کا اعزاز ہے کہ وہ محبّت کے پیامبر ہیں۔ اگر دنیا میں شاعر نہ ہوں اور درسِ محّبت نہ دیں اور دنیا کو شدّت پسند واعظین پر چھوڑ دیا جائے تو نسلِ انسانی کشت و کشتار کا شکار ہو جائے، ہر بزم رزمِ کارزار اور ہر تختہ تختہ دار ہو جائے۔ محبّت ہر دل کی دھڑکن اور ہر بے مسکن کا مسکن ہے۔ بقول حافظ شیرازی
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی 
مگر بناءمحّبت کہ خالی از خلل است 
یعنی “ میرا پیغام محّبت ہے جہاں تک پہنچے” ان کی ایک روایتی طرز کی عمدہ غزل کے دو شعر سنیے اور سر دھنئیے۔ کہتی ہیں 
اپنے سورج کو جو بجھنے سے بچایا میں نے 
اس پہ پڑنے نہ دیا رات کا سایہ میں نے 
رشک نے آنکھ کا کردار بھی بدلا ماہین 
اس نے دیکھا تو بہت ناز دکھایا میں نے 
ناز و نیاز کی بات چھڑی ہے تو عرض ہے جب کوئی مہنازہو تو وہ کیوں نہ نازاں ہو۔ جب کوئی شہناز ہو تو وہ کیوں نہ بے نیاز ہو جائے۔استاد فوق لدھیانوی کا شعری مجموعہ “ زخمِ جاں” اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کا یہ شعر میرے لیے حرزِ جاں ہے۔ کہتے ہیں 
عشق اِدھر نیاز میں، حسن ادھر ہے ناز میں 
مارا گیا غریب دل دونوں کی ساز باز میں 
پروانے گِردِ شمع رقص کناں رہتے ہیں اور آتشِ عشق میں جل کر بھسم ہو جاتے ہیں۔شمع بھی سوزِ دروں سے تا سحر اشک فشاں رہتی ہے اور قطرہ قطرہ بن کر گھلتی ہے۔ راشدہ ماہین ملک بھی شمعِ شاعری ہیں جو غمِ ہجراں اور غمِ دوراں میں سوزاں و فروزاں ہیں۔ گویا “ شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک”لیکن صبحدم دود و خاکستر بن جاتی ہے۔ بقولِ میر تقی میر دمِ صبح بزمِ خوشِ جہاں شبِ غم سے کم نہ تھے مہرباں 
جو چراغ تھا سو تو دود تھا، جو پتنگ تھا سو غبار تھا 
راشدہ ماہین کی شاعری آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی۔یہ ایک گلدست صد رنگ ہے۔ وطن سے محّبت بھی ان کی شاعری میں ایک شدّید جذبہ بن کر ابھرتی ہے- کہتی ہیں 
جو ڈال ڈال خزاں ہے بہار ہو جائے 
مرا وطن ہی مجھے سازگار ہو جائے 
 ان کی ایک غزل میں کئی رنگ و آہنگ ملتے ہیں۔ اِس غزل کے رومانوی اشعار ملاحظہ کیجئے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ محّبت نہیں ملتی 
مِل جاتی ہے پر لمس کی مہلت نہیں ملتی 
جی کرتا ہے مَیں دوڑ کے آوں تری جانب 
لیکن مجھے اب کام سے فرصت نہیں ملتی 
اب اِسی غزل کے دو باغیانہ ، انقلابی اور خود داری کے غماّز زندہ و تابندہ دو شعروں میں شاعرہ کے تیور دیکھیں۔کہتی ہیں۔ لوگوں میں بغاوت کا چلن عام ہوا ہے 
اب جبر کو سہنے کی روایت نہیں ملتی 
مَیں ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتی ماہین مری جس سے طبیعت نہیں ملتی 
اِس سادہ و سلیس غزل میں شاعرہ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے یا بقولِِ مرزا غالب قطرے میں دریائے دجلہ کا نظّارہ کرا دیا ہے۔ راشدہ ماہین کے کلام میں نسوانی جذبات کی نمائندگی مشرقی روایات اور آداب کے دائرے میں رہ کر ہوتی ہے۔ وہ خوشبو ہیں اور ان کے اشعار بھی خوشبو کی صورت دل وجاں کو معطّر کرتے ہیں۔ان کی دلپذیر شاعری اورمسحور کن شخصّیت پر استاد فوق لدھیانوی کا یہ شعر صادق آتاہے
یہ حسنِ مجّسم بھی اگر محوِ دعا ہے اے میرے خدا اور یہ کیا مانگ رہا ہے

مزیدخبریں