آئی پی پیز معاہدے ''ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں''

راہ حق …ضرار چوہان 
M.Zararchohan@gmail.com 

ہم مدعا بعد میں عرض کریں گے پہلے یہ بتادیں: قصہ اس اجمال کا یوں ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ برس 1198ارب کی بجلی خریدی،جب کہ کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 3127ارب روپے کی ادائیگی کی گئی!! ہے کوئی ادارہ یا شخصیت جو اس جادوئی سیاست کا جواب دے ؟ …جس طرح صحت ،تعلیم، روزگار رہائش اور دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی بابت سب حکومتیں مستقبل کی پلاننگ نہ کر سکیں اسی طرح بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر بجلی کی ضروریات کا بھی ادراک نہ کیا جاسکا اور جب بجلی کی کھیپ ہر سال بڑھنے لگی تو کسی حکمران نے سستی بجلی بنانے کے لیے نئے ڈیم کے بارے میں کوئی تعمیری قدم نہ اٹھایا۔ہر حکومت ڈنگ ٹپاﺅ پالیسی پر چلتی رہی۔جب پانی سر سے گزرنے لگا اور مجبورا لوڈ شیڈنگ کی طرف جانا پڑا تو آئی پی پیز کے ساتھ کنٹریکٹ کرنا شروع ہو گئے۔یہ طریقہ تو وقتی طور کے لیے کرنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ ڈیموں پر بھی کام شروع ہو جانا چاہیے تھا مگر افسوس صد افسوس سوائے پی ٹی آئی کی حکومت کے کسی اور نے ڈیم بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں آئی پی پیز کے ساتھ کنٹریکٹ کی ابتدا ہوئی پھر مشرف کے دور میں اور بعد میں پھر پیپلز پارٹی اور آخر میں ن لیگ والوں نے جتنی بجلی کی ضرورت تھی اس سے کہیں زیادہ نئے معاہدے کر دیے اور لوگوں کو بار بار جلسوں اور جلوسوں میں اپنی کارگردگی گردانتے رہے کہ دیکھا ہم نے ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کر دی اس ملک کو اندھیروں سے نکال دیا۔دراصل ان آئی پی پیز کے معاہدوںنے ملک گہری کھائیوں میں پھینک دیا یہاں سے ہی ہمارے ملک کی تباہی کا آغاز شروع ہو گیا جس کا خمیازہ 25 کروڑ عوام بجلی کے بلوں کی صورت میں اور بے پناہ مہنگائی کی صورت میں ادا کر رہی ہے۔یہ جو معاہدیکیے گئے اور جن شرائط پر کیے گئے یہ اس عوام کے ساتھ دشمنی کی گئی تھی کتنی عجیب بات ہے کہ حکومت 41 ہزار میگا واٹ بجلی بنانے کی استطاعت رکھتی ہے مگر پھر بھی پورے ملک میں ظالمانہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور 6سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود بجلی بل پہلے سے 10 گنا زیادہ ہیں صرف ان ظالمانہ معاہدوں کی وجہ سے ان کمپنیوں کو بجلی نہ بھی پیدا کرنے کے باوجود اربوں روپے ادا کرنے کے لیے غریب عوام کا بھر گس نکال دیا گیا ہے۔ ظلم کی انتہا تو دیکھیں کہ سرکاری بجلی گھر بھی 45 فیصد کپیسٹی چارجز عوام سے وصول کر رہے ہیں اس طرح تیس روپے فی یونٹ زیادہ وصول کر رہے ہیں زیادہ تر پاور پلانٹس صرف 40 خاندانوں کے ہیں بہت سارے آئی پی پیز ایک میگا واٹ بجلی پیدا نہیں کر رہے اور اس کے باوجود اربوں روپے غریب عوام سے وصول کر رہے ہیں زیادہ تر آئی پی پیز کے کارخانے جتنی ان کی کپیسٹی ہے اس سے آدھی بجلی بھی نہیں بنا رہے مگر وہ بھی نہ بجلی پیدا کر کے پوری کپیسٹی کے پیسے وصول کر رہے ہیں۔
مذید ظلم دیکھیں کہ کئی بجلی گھر جب لگائے جا رہے تھے تو فرض کریں ان کی پیداواری صلاحیت صرف 70 میگا واٹ تھی مگر بدعنوانی کر کے اس کو100میگا واٹ شو کروایا اور اپ پیسے 100 میگا واٹ کے وصول کر رہے ہیں اس ملک میں بجلی کی قیمت زیادہ سے زیادہ 20 روپے یونٹ ہونی چاہیے تھی مگر اس مظلوم شہریوںسے 60 روپے سے 80 روپے وصول کیے جا رہے ہیں یعنی ایک لوٹ مار کا دھندہ کھلے عام چل رہا ہے یہ معائدہ وطن کے ساتھ دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں باقی دنیا کے کسی ملک میں جو معائدے آئی پی پیز سے ہوئے وہاں فی یونٹ پاکستان سے آدھی قیمت پر لگائے گئے اور کسی کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ بجلی پیدا بھی نہ کرے مگر قیمت وصول کرے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بجلی کی قیمت دوسرے ملکوں سے دگنی تگنی وصول کی جا رہی ہے اس غریب مظلوم عوام سے جو پیسے وصول کیے جا رہے ہیں وہ شاید اربوں کھربوں روپے آئی پی پیز کے مالکان اور ان کے ساتھ معاہدے کرنے اور کروانے والوں کی جیبوں میں جا رہے ہیں ان آئی پی پیز کی آج تک کسی نے آڈٹ نہیں کروایا کسی کی کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کون کتنے ارب کھرب غریب عوام کی جیبوں سے نکال کر یہ ظلم اور بربریت کر رہا ہے حکومت اب کہتی ہے کہ سٹیٹ نے ان کو ساورن گارنٹی دے رکھی ہے کس بات کی گارنٹی؟اور کون سی گارنٹی؟ اور کن کن حکومتوں نے یہ گارنٹی دی ہے؟ یہ سب عوام کے سامنے آنی چاہیے حکومت کہتی ہے کہ ہم ان سرمایہ داروں کو کچھ نہیں کہہ سکتے کہ پھر اس کے بعد کوئی یہاں سرمایہ نہیں لگائے گا ارے بابا یہ 24 کروڑ عوام بے شک مر جائیں، اپنا مال متا ع بیچ کر ان ڈاکوو¿ں کو بجلی بلوں کی صورت میں دے دیں،غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں،ان کے بچے بھوک سے مر جائیں،فیکٹریاں بند ہو جائیں جو کافی تعداد میں بند بھی ہو چکی ہیں اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں،باہر سے کیوں سرمایہ دار یہاں اپنا پیسہ لگائیں گے میں دعوے سے کہہ رہا ہوں ہزاروں لوگ اپنا سرمایہ لے کر اس ملک سے چلے گئے ہیں اور ہزاروں پر تولے بیٹھے ہیں۔آپ لوگ کہتے ہیں ہم اپنی ایکسپورٹ بڑھائیں گے بجٹ جو صرف ہندسوں کا ہیرپھیر رہ چکا ہے اس کے کاغذوں میں بڑھ جائے تو ٹھیک ورنہ اس بجلی کی قیمت اور پٹرول کی قیمتوں سے بلا وہ کیسے باقی دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں اب حقیقت کی طرف آئیں کہ اس وقت پاکستان میں مہنگی بجلی مہنگا پٹرول جس کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے۔بد امنی،بے چینی،دہشت گردی،سیاسی عدم و استحکام، اداروں میں کمزوریاں،رشوت،سفارش،ملاوٹ، جھوٹ میں رچا میڈیا، سچ بولنے پر پابندی جس کی وجہ سے معشیت کی بدحالی روز بروز بڑھ رہی ہے کتنے ائی ایم ایف سے قرضے لیں گے اور آج جو ایک خبر چل رہی ہے کہ حکومت نے 15 مئی سے 30 جون تک اپنے بینکوں سے تین ٹریلین کے قرضے لیے ہیں جن پر شرح سود زیادہ ہے ہم کدھر جا رہے ہیں؟ خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم صاحب خود فرما رہے ہیں کہ پچھلے صرف چار ماہ میں ٹیکس ریفنڈ کی مد میں 800 ارب روپے کا فراڈ پکڑا گیا ہے یہ تھوڑی رقم نہیں ہے اتنا پیسہ تو تعلیم اور صحت کی مد میں نہیں رکھا گیا۔بس میڈیا نے اس سے صرف ایک خبر کی طرح نشر کر دیا شاید ان کو اتنی ہی اجازت ہوگی خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ریفنڈ دینے والوں اور ریفنڈ لینے والوں کا کیاانجام ہے۔کم از کم وزیراعظم یا کسی وزیر کی طرف سے یہ بیان ہی سامنے آ جاتا "کہ ان کو نہیں چھوڑیں گے" مگر اس لوٹ مار کے دور میں شاید انہیں یہ رقم چھوٹی لگی ہو۔آئی پی پیز کے بارے میں سابق وفاقی وزیر گوہراعجاز چند دن پہلے ایک شو میں فرما رہے تھے کہ آئی پی پیز اس ملک کی تباہی کی ذمہ دار ہے کہ جو معائدے پچھلی حکومتوں میں کیے گئے اور جن شرائط پر کیے گئے ان میں بدعنوانی اور بد انتظامی صاف ظاہر ہو رہی ہے فرض کریں ایک کارخانہ لگانے میں 50 ارب لگے ہوں تو اب تک یہ 500 ارب سے زیادہ کما چکے ہیں یہ کارخانے تو ان کے لیے سونے کے پہاڑ نکلے ہیں اور یہ کھربوں روپے غریب عوام سے چوسے جا رہے ہیں یہ بھی شنید ہے کہ جو پرانے آئی پی پیز جن کے ساتھ مائدہ ختم ہو چکے تھے ان میں سے کئی کارخانوں کے کانٹریکٹ دوبارہ رینیو یعنی بحال کر دیے گئے ہیں یقین نہیں آتا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے جب پورا پاکستان آئی پی پیز کے ساتھ ظالمانہ معائدوں پر سوال اٹھا رہا ہے تو ان کو پھر ہمارے اوپر مسلط کیا گیا ہو خدا کرے یہ جھوٹ ہو اور اگر یہ سچ ہے تو پھر الفاظ ہی نہیں بچتے اس حرکت پر کہنے کے لیے انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہوا سے چلنے والے چھوٹے بجلی گھر جن پر باہر کی دنیا میں 60 ملین ڈالر لاگت آتی ہے مگر پاکستان میں وہ 120 ملین ڈالر پر لگے ہیں یہ 60 ملین ڈالر بھی کسی کی جیب میں گئے ہوں گے سونے پر سہاگہ یہ کہ ڈنڈ آپریشن بھی اپنی صلاحیت سے آدھی بجلی پیدا کرتے ہیں مگر وہ بھی پورے پیسے وصول کر رہے ہیں یعنی تقریبا 175 ارب روپے یہ اس لٹے پٹے شہری کا مطالبہ ہے کہ تمام آئی پی پیز کے معاہدے اور ڈیٹا پبلک کیا جائے اور بتایا جائے کہ کس کس کی کتنی پیداواری صلاحیت ہے اور کتنے ارب ان کو کپیسٹی پیمنٹ دے چکی جا چکی ہے اور کس نے ضرورت سے زیادہ بجلی گھر لگائے۔ ہم حکمرانوں، طاقتور حلقوں اور عدلیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ ان آئی پی پیز کے تمام مالکان سے بات چیت کی جائے کہ بس اب ہمارے بس میں تمہیں دینے کے لیے پیسے ختم ہو چکے ہیں ورنہ ڈر ہے کہ سیاسی عدم و استحکام مزید گہرا نہ ہوجائے ، سیاسی اور معاشی انتشار ختم کرنے کے لیے کوئی پارٹی بھی فکر مند نہیں اور اگر دو تین مہینوں میں بجلی بلوں اور پٹرول میں بھی کمی نہ آئی تو حالات وہاں پہنچ سکتے ہیں کہ پھر کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں کیونکہ بھوک بہت بڑی چیز ہے!!
 تو کی جانے یارا میرا
روٹی بندہ کھا جاندی اے

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...