احسان جتلانے پر وعید(۲)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : احسان جتانے والا ، ماں باپ کا نا فرمان، شراب کا عادی ، جادو پر ایمان رکھنے والا اور کاہن جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ ( شعب الایمان )۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو اور اس کے نیچے دریا بہہ رہے ہوں اس کے لیے اس باغ میں ہر قسم کے پھل ہوں اور اس کو بڑھاپا آجائے اوراس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو (اچانک)اس باغ میں گرم ہوا کا ایک بگولہ آئے جس میں آگ ہو اور وہ باغ جل جائے۔ اللہ تمہارے لیے اسی طرح آیتیں بیان فرماتا ہے 
تا کہ تم غور و فکر کرو۔ ( سورة البقرة : ۶۶۲)۔
احسان جتانے والے کو مزید یہ مثال دے کر بتایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حسین اور پھل دار باغ ہوں اور اس کو بڑھاپا آچکا ہو اور کمانے سے قاصر ہو اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں جن کی پرورش اس کے ذمہ ہو اور اس کا سارا دارومدار اسی باغ پرہو اور اچانک وہ باغ جل جائے تو اس کے نقصان اور محرومی کا کیا عالم ہو گا۔ یہی مثال ایسے شخص کی ہے جو غرباءو مساکین کو صدقہ وخیرات دے کر پھر ان کر احسان جتلائے اور ان کو ایذا دے تو اس شخص کے تمام صدقات و خیرات ضائع ہو جائیں گے تو ایسے شخص کی قیامت کے دن محرومی کا کیا عالم ہو گا جب کسی اور جگہ سے نیکی ملنے کی کوئی امید نہ ہو گی اور اسے نیکیوں کی سخت ضرورت ہو گی۔ 
حافظ اما م سیوطی فرماتے ہیں حضرت عمر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا اے امیر المومنین اللہ نے یہ مثال بیان کی ہے کہ کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ ساری عمر نیک اور صالح عمل کرے اور جب وہ بوڑھا ہو جائے اس کی موت قریب آ لگے اور وہ کمزور ہو چکا ہو اور اسے اس بات کی زیادہ ضرورت ہو کہ اس کے اعمال کا خاتمہ نیکیوں پر ہو اور اس وقت وہ دوزخیوں کے سے ب±رے کام کرنا شروع کر دے ایسے ب±رے کام جن سے اس کے سابقہ سارے نیک اعمال ضائع ہو جائیں اور اس کی زندگی کے سارے نیک کاموں کا باغ اس آخری برائی سے جل کر راکھ ہو جائے۔ یعنی صدقہ و خیرات کرنے والا ساری عمر لوگوں کی مدد کرتا رہے اور پھر ان کو احسان بھی جتلائے اور طعنے دے کر ایذاپہنچائے تو اس کے نامہ اعمال میں کچھ بھی نیکی نہ بچے گی۔

ای پیپر دی نیشن