بدھ ‘ 17 محرم الحرام 1446ھ ‘ 24 جولائی 2024

نئے الیکشن کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتے۔حافظ نعیم۔
چلیں اس شور شرابے کے دور میں کسی نے تو ماحول بہتر بنانے کے لیے ایک الگ انداز میں بات کی۔ بات تو وہی پرانی ہے جو سب اپوزیشن جماعتیں کہہ رہی ہیں مگر انداز مہذبانہ ہے۔ اوئے اور توئے سے پرہیز کرنے سے دیکھ لیں کتنا خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے۔ اب جے یو آئی اور پی ٹی آئی والے کہیں اس پر برا نہ منا لیں جماعت کے امیر حافظ نعیم نے میٹھی چھری استعمال کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے۔ نئے الیکشن کا مطالبہ بلاجواز ہے نئے الیکشن کیوں ہوں۔ اصل مسئلہ فارم 45 کے تحت کامیاب ہونے والوں کو کامیاب قرار دینا ہے تاکہ وہ آ کر اسمبلی میں اپنی جگہ سنبھالیں۔ یوں سارا مسئلہ ہی حل ہو گا جو جیتا ہے وہ سامنے آئے گا۔
 دیکھ لیں بات کرنے کا سلیقہ کیسے کڑوی بات کو بھی میٹھی بنا دیتا ہے ضروری نہیں ہر وقت منہ سے آگ اگلا جائے۔ مخالفت اگر طریقے سے ہو تو انتشار کم ہوتا ہے۔ اب یہ جماعت اسلامی کے امیر نے بڑی اچھی بات کی یہی رویہ اگر سب جماعتیں اپنا لیں سیاسی منظر نامہ میں بہتری آ سکتی ہے۔ سب کا یہی مطالبہ ہے کہ فارم 47 والے نہیں 45 والے اسمبلیوں میں براجمان ہوں۔
 اب دیکھنا ہے ہوا کے گھوڑے پر سوار باقی سیاسی جماعتیں اپنے بیانیے میں کامیاب ہوتی ہیں یا جماعت اسلامی دونوں صورتوں میں نقصان تو موجودہ حکومت کا ہے۔ چاہے الیکشن ہوں یا فارم 45 کی کامیابی دردسر صرف حکمرانوں کے لیے ہے۔ 
تعلیم دشمنوں نے گرلز سکول دھماکے سے اڑا دیا۔
ابھی ایک روز قبل کی بات ہے کہ طالبان دہشت گردوں کے پاکستانی گروپ کی جو خفیہ کال پکڑی گئی اس میں جو کچھ وہ کہہ رہے تھے، اس پر انہوں نے حرف بحرف عمل کر کے بھی دکھا دیا ہے۔ اب شورش والے علاقوں میں آپریشن کی مخالفت کرنے والوں سے کوئی پوچھے کہ جناب اب اپنے پیاروں کے حق میں کیا دلیل دیں گے کہ ان کو لگام نہ ڈالی جائے۔ دیکھ لیں انہوں نے کس طرح لڑکیوں کے سکول کو بم سے اڑا کر اپنی دھمکی پر عمل کر کے دکھا دیا۔ دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ آس پاس کے گھروں کی کھڑکیاں دروازے ٹوٹ گئے۔
 شکر ہے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ تحریک طالبان پاکستان ابتدا ہی سے تعلیم کی دشمن ہے۔ پہلے بھی اس نے سوات تک دہشت کا جو بازار گرم کیا اس میں بھی سکول ، کالجز، خاص طور پر لڑکیوں کے تعلیمی ادارے ان کا ٹارگٹ رہے تھے۔ اب منظور پشتین ہو یا محمود اچکزئی۔ یا کوئی اور جماعت یا تنظیم ان کو بچانے کے لیے کتنے ہی ڈرامے کر لیں مظلومیت کا ڈھونگ رچا کر علاقائی سیاست و عصبیت کا پرچار کریں، ان علاقوں کے عوام کو بے رحموں کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ بعد میں یہی لوگ امن کے نام پر شور مچا کر عوام کو مزید گمراہ کریں گے۔ اس وقت تحریک طالبان پاکستان جو کر رہی ہے۔ اس پر وہ چپ ہیں جب ان کے خلاف کوئی کارروائی ہو تو یہ سب برساتی مینڈک کی طرح ٹرٹرانے لگتے ہیں۔ طالبان کے سامنے تو ان سب کی بولتی بند رہتی ہے۔ 
اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی۔
 پنجاب اسمبلی کا یہ اجلاس خود اپوزیشن نے بلایا تھا۔ مگر نجانے ایسا کیا ہوا کہ وہ خود ہی اپنے بلائے گئے اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایوان میں 60 ارکان کے نام پکارے مگر وہ موجود نہیں تھے۔ یوں کورم پورا نہ ہونے پر یہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ سپیکر نے یہ بھی بتایا کہ ان ارکان نے فراڈ سےٹی اے ڈی اے بل وصول کرنے کے لیے جھوٹی حاضریاں بھی لگوائیں۔ یہ اجلاس نہ ہوا کسی پسماندہ سکول کے طلبہ و اساتذہ کی حاضری کا معاملہ ہوا۔ جہاں اکثر اساتذہ اور طلبہ جو یونہی ستائش باہمی کے تحت حاضریاں لگواتے ہیں اور موجود کوئی نہیں ہوتا۔ سوچنے کی بات ہے۔ یہ اجلاس مفت میں نہیں ہوتے۔ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر ارکان اسمبلی ہی ایوان کی اس طرح بے توقیری کریں گے تو خود ان کی ذات بھی تماشہ بنے گی۔ ان پر تنقید بھی ہو گی۔ اجلاس نہ ہوا لکی ایرانی سرکس کا شو ہوگیا۔
 اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے ان ارکان نے جن کی تعداد 60 ہے، رجسٹر پر حاضری بھی لگائی ہوئی ہے تاکہ ان کے ٹی اے ڈی اے بل بھی بن جائیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ حاضری لگا کر سکول کے طلبہ کی طرح دیواریں پھلانگ کر سکول سے باہر چلے گئے تھے یا غائب ہو گئے۔ اگر آئے نہیں تو ان کی حاضری جنہوں نے لگائی ہے وہ جو بھی ہوں ذرا پتہ تو لگایا جائے کہ یہ حرکت کس نے کی اور کیوں کی۔ اجلاس بلانے والے اپنے ہی بلائے گئے اجلاس میں کیوں نہیں آئے۔ 
ٹریفک چالان بمعہ ثبوت دئیے جائیں گے۔
اس سے ان عادی قانون شکنوں پر کیا اثر ہو گا جو بدمست ہیں۔ سیفٹی کیمروں سے جو ای چالان ہوئے ان میں اکثریت ان لوگوں کے گلے پڑی جنہوں نے اپنے دوستوں کو یا رشتہ داروں کو کچھ دیر کے لیے موٹر سائیکل یا گاڑی دی تھی۔ اس کے علاوہ بے شمار چالان کرائے پر لی گئی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کے بھی نکلے۔ اب حکومت پنجاب نے وزیر اعلیٰ کے حکم پر ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کا حکم دیا ہے تو اس کے بعد ٹریفک پولیس کی طرف سے چالان کے ساتھ ثبوت بھی ساتھ منسلک ہو گا۔مگر یہ یاد رہے۔ 
یہ پاکستان ہے کوئی یورپین ملک نہیں کہ یہاں کے لوگ ایمانداری سے یہ ثبوت دیکھ کر سر جھکائے چالان جمع کرانے آئیں گے۔ جہاں بلا لائسنس بچے تک موٹر سائیکل ، رکشے اور گاڑیاں چلاتے ہیں۔ بسوں، ویگنوں اور ٹرکوں کو نشئی چلاتے ہیں۔ وہ کیا یہ مہذب انداز چالان سے مرعوب ہوں گے۔ لگتا نہیں کہ ایسا ہو گا۔ 
ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر پہلے ہی بہت سے قانون موجود ہیں۔ اصل بات ان پر عمل کی ہے اور سزاﺅں پر عمل درآمد کی ہے جو ہم کرتے ہی نہیں۔ رشوت اور سفارش کی وجہ سے بااثر لوگ نکل جاتے ہیں عام غریب لوگ مارے جاتے ہیں۔ یہاں تو ہر بڑے گاڑی والے کا ماما، چاچا، باپ یا بھائی یا تو ایم پی اے ہوتا ہے یا کسی اعلیٰ عہدے پر فائز، یوں وہ بڑی سے بڑی خلاف ورزی پر بھی معصوم رہتے ہیں۔ یہی صورتحال گاڑیوں، بسوں، ویگنوں، رکشوں اور ٹرکوں کی ہے جو بنا فٹنس سرٹیفکیٹ کے سڑکوں پر موت بانٹتے پھرتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن