سیاسی استحکام کی بات کریں تو دور دور تک اس کے آثار نہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق اس وقت رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 176ہے۔ تاہم سیاست کے لیے کسی کا بھی کوئی فعال کردار نہیں۔ مسلسل رہنے والے اسی سیاسی عدمِ استحکام نے پاکستانی معیشت کو بھی آج پٹڑی سے اتار رکھا ہے۔ سیاسی اتار چڑھاﺅ کی اس کیفیت نے ہر چیز کو جام کر دیا ہے۔
پاکستان ایک پارلیمانی نظام جمہوریت رکھتا ہے۔ جس میں چیف ایگزیکٹو کا عہدہ خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ عہدہ عرف عام میں وزیر اعظم کہلاتا ہے۔ اس پارلیمانی نظام جمہوریت میں صدر کا بھی عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔ جو ایک آئینی عہدہ ہے۔ صدر کا کام نیشنل اسمبلی اور سینیٹ سے پاس شدہ قوانین پر دستخط کرنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے عہدہ کی طرح صدر کے عہدہ کی آئینی مدت بھی پانچ سال ہے۔
یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ ہمارا نظام پارلیمانی جمہوری نظام کے تحت چلتا ہے۔ ملک کے تمام ادارے پارلیمانی نظام اور آئین کے تابع ہیں۔ پاکستان میں جو آئین نافذالعمل ہے وہ 1973ءکا آئین کہلاتا ہے۔
جوں جوں وقت بدلا۔ جتنے بھی ادوار آئے۔ آئین میں ہر موقع اور ضرورت کے مطابق ترامیم ہوتی رہیں۔ نیشنل اسمبلی ہی وہ جگہ ہے جہاں آئین بنتا ہے اور صدر کے دستخطوں کے بعد نافذ العمل ہو جاتا ہے۔ یہاں سیاسی لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں اور آئین سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
مگر یہی لوگ جب سیاست میں اپنا ”کردار“ ادا کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں دیکھ کر ایک دم مایوسی ہونے لگتی ہے۔ سیاست اب ایسا کھیل بن چکا ہے۔ جس میں نفرتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کرپشن، لوٹ ماراور الزامات کی ایسی گھمبیر کہانیاں ہیں جو ان سے منسوب کی جاتی ہیں۔ کچھ سچی ہوتی ہیں اور کچھ واقعی بہت من گھڑت۔ لیکن اس سے جو صورت حال پیدا ہوتی ہے اس کا حال کچھ نہ پوچھئے۔ ہم روز ڈیجیٹل میڈیا اور اخبارات میں یہ کہانیاں دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ سیاست کا سیاسی لوگوں نے ہی برا حال کر رکھا ہے۔ سیاست کو اس حال تک پہنچانے والے یہی لوگ ہیں۔ قوم خوب ان کو پہچاننے لگی ہے۔ اچھی طرح جان گئی ہے کہ ان ہی کی وجہ سے ملک آج بربادی کے دہانے پر ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی بات نہیں کر رہا، اس حما م میں تو سب ننگے ہیں۔
سیاست دانوں کے نزدیک اقتدار سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ ایسا سوچتے ہوئے وہ ملک کے لیے ہی سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ترقی یافتہ اس جدید سائنسی دور میں بھی ہمارے بیشتر علاقے اب بھی صاف پانی سے محروم ہیں۔ بجلی، گیس کا بھی شدید بحران ہے۔ بعض علاقوں میں تو بجلی اور گیس آتی ہی نہیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب کئی کئی گھنٹے جھیلنا پڑتا ہے۔ کرپشن اور رشوت کا عنصر ہر سرکاری محکمے میں بدرجہ اتم موجود ہے اور اس قدر غالب ہے کہ اس کے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوتے۔ افسران سفارشوں پر لگتے ہیں جو بے ایمان اور انتہائی کرپٹ ہوتے ہیں۔ اب ہم عدلیہ کی بے حرمتی دیکھ رہے ہیں۔ ایسی مثال شاید ہی ماضی کے کسی دور میں ملتی ہو۔
بدقسمتی یہ بھی دیکھئے کہ کسی وجہ سے جولیڈر اپنی جماعت چھوڑتا ہے چونکہ سیاست کو نہیں چھوڑ سکتا ، اس لیے کسی دوسری جماعت میں چلا جاتا ہے یا پھر اپنی نئی سیاسی جماعت بنا لیتا ہے۔ کافی سیاستدانوں کی طرح شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ ن لیگ نے پذیرائی نہ بخشی تو اپنے راستے الگ کر لئے۔ خود ہی جماعت (ن لیگ) سے نکل گئے اور ”عوام پاکستان پارٹی“ کے نام سے نئی جماعت بنا لی اور اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا۔ میڈیا نے یہ خبر چلائی جو پورے ملک میں سنی گئی۔ رجسٹرڈ ہونے کے لیے شاہد خاقان عباسی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست بھی جمع کرا دی ہے۔ جہاں پہلے ہی 175سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔ خیر سے اب ایک اور نئی سیاسی جماعت کا اضافہ ہو گیا ہے۔ کچھ اور لوگ بھی کیا اس جماعت میں شامل ہوں گے۔ تعداد کتنی ہو گی؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن عوام پاکستان پارٹی بھی شاید تانگے والی پارٹی ثابت ہو کہ سابق وزیراعظم ہونے کے باوجود شاہد خاقان عباسی، نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان جیسا سیاسی قد کاٹھ نہیں رکھتے۔ اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ ”عوام پاکستان پارٹی“ سیاست میں اپنی کوئی جگہ بنا سکے گی اور دوسروں کے لیے خطرہ ثابت ہو گی۔ بہرحال نئی سیاسی جماعت بنانے کا جو چاﺅ تھا وہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے پورا کیا۔ آگے کیا ہوتا ہے؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
سیاست ایک آئینی چیز ہے جو آئین پاکستان کے دائرے میں رہ کر کی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آئین پاکستان نے ہی سیاست کو قائم کیا ہے۔ سیاست کسی جماعت کی بنائی گئی اس پالیسی کو کہتے ہیں جس کا مقصد ملک کی بالا دستی کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ سیاست ملک کو کامیابی پر لے جانے کا نام ہے۔ سیاست کا مطلب ملک میں خوشحالی لانا ہوتا ہے۔
سیاست کئی طرح کی ہو سکتی ہے جو اقتدار کے حصول، مذہبی اقدار اور جمہوری روایات کے تحفظ اور عوام کے حقوق کے لیے کی جاسکتی ہے۔ دنیا میں کہیں بادشاہت ہے تو کہیں مغربی جمہوریت۔ پاکستان میں گزشتہ 70دہائیوں سے ہم نے کبھی جمہوری سیاست اور کبھی عسکری سیاست کو ہوتے دیکھا ہے۔ ہمیشہ اہل ِ زر ہی اہل زور بنے۔ عملی طور پر سیاست کی تین اقسام ہیں۔ نظریاتی، مصالحاتی اور مفاداتی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی سیاست میں پہلے نظریاتی سیاستدان تھے۔ بھٹو نے اسلام ہمار ادین، جمہوریت ہماری سیاست، سوشلزم ہماری معیشت اور طاقت کا سرچشمہ عوام کا نعرہ دیا۔ انہوں نے روٹی، کپڑا اور مکان کی بات کی۔ جو انسان کی بنیادی ضروریات ہیں۔ انہوں نے ان ضروریات کی فراہمی کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا۔ بھٹو نے ہمیشہ خود کو جمہوریت کا علمبردار کہا اور قرار دیا۔ بھٹو ”مسلم سوشلسٹ“ ہونے کے بھی دعویدار تھے۔ ان کے دور میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست نظریاتی سیاست بن گئی۔ تمام سرمایہ دار، جاگیردار بھٹو کے مخالف تھے جبکہ کسان، مزدور، شاعر، ادیب اور دانشور بھٹو کے حامی نظر آئے۔ بھٹو کے بعد نظریاتی سیاست کا ہی خاتمہ ہو گیا۔اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم و نسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔قرآن کریم میں سیاست کا لفظ تو نہیں، البتہ ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں۔ بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے۔ مثلاً عدل و انصاف، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، مظلوموں سے اظہار ہمدردی و حمایت، ظالم اور ظلم سے نفرت، علاوہ ازیں انبیا اور اولیاءاکرام کا اندازِ سیاست بھی قران مجید میں بیان کیا گیا ہے۔
پاکستان میں سیاست، حکمرانی کے تصور سے موسوم کی جاتی ہے۔ جو بھی نئی یا پرانی سیاسی جماعت ہے، حکمرانی اس کا پہلا تصور ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر جماعت کہتی ہے کہ اقتدار حاصل کئے بغیر وہ عوام کی بہتر خدمت نہیں کر سکتی۔ جیسے ہی الیکشن کے دن قریب آتے ہیں ہر جماعت اور اس کا لیڈر بلند بانگ دعوے کرتا ہے۔ کہ اقتدار میں آئے تو یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے لیکن اقتدار ملتا ہے تو یہ دیکھا گیا ہے کہ برسر اقتدار جماعت اپنا منشور اور عوام سے کئے گئے دعوے وعدے بھول جاتی ہے۔ سیاست کرنا اور سیاسی جماعتیں بنانا بچوں کا کھیل بن گیا ہے۔ کسی پر سیاست کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے تاہم کسی بڑی عوامی پذیرائی کے بغیر نئی سیاسی جماعت بنانے پر ضرور قدغن لگنی چاہیے۔ تاکہ سیاست میں کھینچا تانی اور افراتفری کا ماحول ختم ہو سکے۔ آج سیاست میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں، عدم استحکام ہے جس سے معیشت تباہ ہوگئی ہے۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے۔