افتخار سندھو کی طلسم ہوشربا

Jul 24, 2024

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

چودھری افتخار سندھودرد دل رکھنے والے انسان اور محبت وطن پاکستانی ہیں۔ وہ ایک سیلف میڈ اور سماجی و فلاحی شخصیت ہیں،حق اور سچ بات کہنے سے بالکل نہیں گھبراتے۔ان کی آٹو بائیو گرافی ”افتخار نامہ“دراصل ایک طلسم ہوشربا ہے۔ جس میں انہوں نے پوری حقیقتوں اور صداقتوں کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی کے واقعات کو قلمبند کیا ہے کہ پڑھنے والا بھی اس کتاب کے انتخاب پر فخر محسوس کرے گا۔اگرچہ فاضل مصنف نے”افتخار نامہ“ میں اپنی زندگی کی مشکلات اور جدوجہد کا ذکر کیا ہے مگر ساتھ ساتھ انہوں نے وطن عزیز کے بہت سے شعبوں اور اداروں میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی بھی نشاندہی کی ہے جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے، اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ”افتخار نامہ“ بات ایک شخص کی نہیں بلکہ یہ داستاں پورے جہان کی ہے۔انہوں نے اپنی زندگی بھر کے تجربات اور علم کو عوام کے نام کردیاہے۔
 افتخار احمد سندھو کا کمال یہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ناکامی کے خوف سے آزاد ہو کر اپنا سفر جاری رکھا۔ موصوف کی اسی سوچ کا عکس آپ کو ان کی کتاب ”افتخار نامہ“ میں بھی دکھائی دے گا جو ایک درد مند پاکستانی شہری کے جذبات میں ڈوب کر لکھی گئی ہے۔دنیا میں آج بھی لوگ سقراط،بقراط،افلاطون اور بو علی سینا کو اس لیے یاد رکھے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے اچھے برے خیالات و نظریات کو اپنے لوگوں کے ساتھ شیئر کیا۔ میں سمجھتا ہو ں کہ”افتخار نامہ“ایک ایسی عہد ساز شخصیت کی یاد داشتوں پر مشتمل ایک ایسے گلشن کی مانند ہے جس میں بیان کردہ صداقتوں کی خوشبو ہر کوئی محسوس کرے گا۔ جس طرح جناب افتخار احمد سندھو کا دسترخوان وسیع ہے، اسی طرح ان کے قلب و نظر کی وسعت بھی بحر بیکراں کی مانند ہے جس کا عملی مظاہرہ انہوں نے اپنے شعبے میں بھی کیا ہے۔ انہوں نے سرمائے کی بنیاد محنت پر رکھی جو آج بھی جہد مسلسل کی طرح ان کے عمل اور قول و فعل میں نظر آتی ہے۔ 
چودھری افتخار سندھواپنی خود نوشت”افتخار نامہ“ کے ابتدائیے میں لکھتے ہیں کہ”میں ایک عام آدمی ہوں اور یہ ایک عام شخص کی زندگی کی کہانی ہے۔ہمیشہ بڑے لوگوں نے اپنی آپ بیتی لکھی، ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی عام آدمی نے اپنی آٹو بائیو گرافی لکھی ہو۔میں نے اپنے احساسات، خیالات، مشاہدات، تجربات اور زندگی میں پیش آنیوالے واقعات کاخلاصہ قلم بندکرتے ہوئے ہر ممکن حد تک احتیاط کی کوشش کی ہے اورانصاف و احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔میں جب بھی اپنے وطن عزیز یا دنیا میں کوئی ظلم اور ناانصافی دیکھتا ہوں تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے،دل خون کے آنسو روتا ہے۔اور میں اپنے جذبات کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔میں شاعر تو نہیں لیکن ایک بار فی البدیہہ میرے دل کی بات میری زبان پر آئی تو یہ شعر ہوگئے:
ربا سچیا آکے دس مینوں
کیوں ظلم دا پٹ میں بی لواں
کوئی نویں ہدایت ہن دے مینوں
تریاق سمجھ کے زہر نوں پی لواں
ویکھ ظلم کلیجہ پیاپاڑ دا اے
اس دور وچ کیویں میں جی لواں
کوئی سوئی دھاگہ مینوں لب دیوو
جندے نال میں بلاں نوں سی لواں
افتخار احمد سندھو غیر معمولی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود دیہی ماحول میں پلے بڑھنے والے ایک سادہ طبیعت انسان ہیں جنہیں آج بھی شہرکی مصنوعی زندگی کے مقابلے میں اپنے گاﺅں کی مٹی اور ہریالی سے عشق ہے۔ وہ پاکستان کو بھی سرسبز اور شاداب دیکھنا چاہتے ہیں۔ان کی شگفتہ بیانی کا یہ عالم ہے کہ ان کی تحریروں میں جابجا آپ کو چٹکلوں اور لطیفوں کی جھلک ملتی ہے۔ ملک میں ہونیوالی کرپشن پر نیب سے زیادہ ان کی نظر ہے۔ انہوں نے اپنی آٹو بائیو گرافی میں جو کچھ لکھا ہے اس میں پاکستان کے مظلوم اور مزدور طبقوں کی بڑی واضح تصویر دکھائی دیتی ہے۔ افتخار احمد سندھو اسلام میں فرقہ بندی کے سخت خلاف ہیں اور اس معاملے پر اکثر تشویش کا اظہار کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔یہ ان کا ذاتی خیال ہے کہ ہمارے سیاسی طالع آزماﺅں کو اسلام سے زیادہ ”اسلام آباد“ کی ضرورت ہے۔
”افتخار نامہ“ محض ایک آٹو بائیو گرافی نہیں بلکہ وطن عزیز کے مختلف شعبوں کو دیمک کی طرح کھا جانے والے مافیاز کے خلاف ایک ایف آئی آر ہے جس پر شاید ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی ازخود نوٹس لینے کی جرات نہ کرے۔ ہمارے ہاں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی اہم شخصیت خود نوشت لکھتی ہے تو وہ اپنے بارے میں سچ کو ایک طرف رکھ دیتی ہے مگرعالم و فاضل مصنف نے اپنی زندگی کے کسی بھی اچھے برے پہلو کو اپنے قارئین سے مخفی نہیں رکھا اور اپنے بارے میں وہی باتیں لکھی ہیں جو پڑھنے والے کے دل کوچھوتی ہیں۔ افتخار احمد سندھو نے قرآن اکیڈمی قائم کر کے قرآن سے اپنے عشق کا عملی ثبوت دیا ہے۔کتاب میں جن حساس موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے چند الفاظ میں اس کا احاطہ ممکن نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ”افتخار نامہ“ ہر محب وطن اور سچے پاکستانی کے دل کی آواز ہے جس کی بازگشت آنیوالے وقت میں بھی اقتدار کے ایوانوں اور ان کی غلام گردشوں میں گونجتی رہے گی۔ افتخار سندھو کی خود نوشت”افتخار نامہ“ کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کا سحر ایک قاری کو اپنے حصار میں لینے کی قدرت رکھتاہے۔ افتخار احمد سندھو نے اپنی خود نوشت میں جہاں پاکستان کی غلط العام تاریخ، میڈیا کے منفی کردار،ہمارے کمزور عدالتی نظام،فرسودہ اور فضول مذہبی و معاشرتی رسوم و رواج،سقوط ڈھاکہ کے پس پردہ کردار، صبر اور تحمل،صلہ رحمی کی برکات اوراپنی زندگی کے ناقابل فراموش واقعات پر قلم اٹھایا ہے وہاں کامیاب زندگی گزارنے کے 10سنہری اصول بھی بیان کیے ہیں۔
 خلاصہ یہ کہ اگر ہم اپنے ملک و قوم کی بقا اور اس کی ترقی چاہتے ہیں توہ ہمیں آج سے آپسی لڑائیوں، ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں،کدورتوں اور دلوں سے بغض و کینہ کو نکال باہرپھینکنا ہوگا۔ہمیں اسلامی ممالک کی آپسی نااتفاقی اور ناچاکی سے عبرت حاصل کرنا ہوگی جن کی آپسی لڑائیوں اورتنازعات کی وجہ سے اسرائیل نے ان کے سامنے ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو شہید کر دیامگر اس کے باوجود وہ اسرائیل کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکے۔ہماری عدلیہ کو بھی سوچنا ہوگا کہ جہاں ایک غریب اور کمزور آدمی کوکئی نسلوں تک انصاف نہیں ملتااور عدل و انصاف فراہم کرنے والے اداروں پر جس طر ح مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے غلط یا درست الزامات لگائے جاتے ہیں، اس سے بھی عدل و انصاف کے اداروں پر اٹھنے والے سوالیہ نشان ملک کیلئے نقصان دہ ہیں۔اگر ہماری عدلیہ چند ایک مجرموں کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے نشان عبرت بنا دے تو ہماری سیاست کا قبلہ خود بخود درست ہو جائے گا۔

مزیدخبریں