عزم استحکام پرپچھلے دو کالموں میں امریکن قراردا د کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو کے بعد جو نکات اٹھائے ان میں سر فہرست یہ ہیں کہ اس ایکسائز “عزم استحکام “ کی مخالفت میں کون کونسی سیاسی پارٹیوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہے اور اسکے پیچھے کیا محرکات اور اسباب ہو سکتے ہیں جبکہ اسکے ساتھ ہی ان خبروں کی بازگشت کہ اس ایکسائز کے شروع ہونے کی خبروں کے ساتھ ہی ایک سیاسی پارٹی میں ایک مخصوص صوبہ سے تعلق رکھنے والے کچھ ممبران کے ایک علیحدہ بلاک بنانے کے قوی امکانات پائے جا رہے ہیں انکے اس عمل کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔ اور پھر سب سے بڑی بات کہ ففتھ جنریشن وار کے ذریعے اس ایکسائز کو متنازعہ بنانے والوں کی اکثریت کا کن سے تعلق ہے، یہ بات کرنے سے رہ گئی تھی۔ ان پر کل شام ڈی جی آئی ایس پی آر نے کھل کر اسطرح بات کی جس سے ایک بات تو یقین کی حد تک کہی جا سکتی ہے کہ پارٹی وابستگی سے ہٹ کر ایک محب وطن پاکستانی اور ریاست کی سوچ اور فکر میں رتی برابر بھی نہ کوئی فرق ہے اور نہ اختلاف۔
اس خاکسار کی دانست میں لکھاری کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کسی بھی معاملے میں کسی بھی فریق پر کوئی مخصوص لیبل چسپاں کر دے۔ راقم کے نزدیک یہ اختیار صرف اور صرف ایک عام قاری کے پاس ہوتا ہے کہ وہ تمام حقائق جاننے کے بعد اپنے تئیں کوئی فیصلہ کرے۔ جبکہ لکھاری کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ بغیر ڈنڈی مارے تمام حقائق اپنے قاری کے سامنے رکھے۔ پچھلے چند سالوں سے اسے ریاست کی بدنصیبی کہیئے کہ ملک کے ایک اچھے خاصے طبقہ جس کی انکے ہاتھوں ہی ذہنی آبیاری ہوئی وہ کسی کے سحر میں اسطرح گرفتار ہوا کہ اس طلسماتی شخصیت نے انھیں دن کہا تو انھوں نے کہا دن ہے اس نے انھیں رات کہا تو انھوں نے اسے رات کہا بلکہ راقم اگر یہ کہے کہ یہ بالکل ٹین ایجروں کے رومانس کی شکل اختیار کر گیا جہاں دنیا کی ہر چیز حتی کہ ماں باپ بھی محبوب کے سامنے صفر حثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ یہی کچھ یہاں ہوا۔ وہ ریاست جسکی حیثیت ماں جیسی ہوتی ہے اور باپ کے سائے کی طرح انکی حفاظت کرنے والی افواج جنھیں کسی وقت انھوں نے بھی اسی مقام اور اسی مرتبے پر فائز کیا ہوا تھا وہ سب اسی ٹین ایجر “رومانس” ، بلکہ میں تو یہ کہونگا “عشق “ کی نذر ہو گئے۔ کہتے ہیں غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف اور پھر انکا ادراک بڑے بڑے سانحات کا جنم روک سکتا ہے۔ زمینی حقائق کی روشنی میں راقم اگر یہ کہے کہ پچھلے تین سال سے ریاست کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈا کو کاونٹر کرنے کیلیئے ریاستی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے بلکہ سرکاری ذرائع اور سطح پر جو بھی اقدامات اٹھائے گئے وہ ریاستی نہیں حکومتی اور ذاتی تشہیر کے زمرے میں ہی آتے ہیں اور ان سے بدگمانییوں کے فاصلوں کو اور وسعت اور تقویت ملی تو شائد یہ بیجا نہ ہو۔ حقیقتیں ہوتی ہی دہرانے کےلیئے ہیں۔ ایک وقت تھا اسی ڈی جی آئی ایس پی آر آفس کی طرف سے باقاعدہ پریس بریفنگ ہوتی تھی نہ کہ صرف پریس کانفرنس۔ دانش کدہ کے مکین راقم کی طرف سے استعمال ٹرم “ پریس بریفنگ” اور “پریس کانفرنس” کو سمجھ گئے ہونگے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ وہ تمام حقائق اور ثبوت ان پریس بریفنگز میں سامنے لائے جائیں کہ کس طرح 2009ءمیں آپریشن راہ راست کے ذریعے صرف تین ماہ کے عرصہ میں مالاکنڈ ڈویڑن بشمول سوات میں دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا بلکہ اسکے ساتھ ہی متاثرین کی دوبارہ آباد کاری بھی کی گئی۔ اسکے ساتھ وہ حقائق بھی سامنے لائے جائیں کہ آپریشن ردالفساد اور ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف حاصل اہداف کو کن چند شخصیات کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھایا گیا اور ثبوتوں کے ساتھ اس نیٹ ورک کی تفصیلات سامنے لائی جائیں کہ پردے کے اسطرف کیا تصویر پینٹ کی گئی اور پردے کے پیچھے کیا کیا گل کھلے۔ مزید برآں آج کے ملکی حالات اور موجودہ ففتھ جنریشن وار کی پروپیگنڈہ مہم بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اس ایکسائز “عزم استحکام “ کے طریقہ کار اور اہداف پر نہ صرف عوام کو اعتماد میں لیا جائے بلکہ انھیں یہ بھی بتایا جائے کہ یہ کسی صورت انکے جائز حقوق دبانے، انھیں سائیڈ لائن کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش یا عمل نہیں ہے بلکہ اسکے نتائج اسی طرح رنگ لائینگے جیسے 2009ئ میں “ راہ راست” کے ذریعے نہ صرف امن ملا تھا بلکہ دوبارہ آباد کاری کے ساتھ زندگی کی وہ رونقیں بھی واپس آ گئی تھیں جو ایک خواب بن کر ہی رہ گئی تھیں۔
جہاں ہم اتنی حقیقتوں کی بات کر رہے ہیں وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ “ راہ راست” “ردالفساد” اور “ضرب عضب” کے وقت سیاسی ایلیٹ خاص کر راہ راست کے وقت ریاست کے شانہ بشانہ کھڑی تھی اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ ہوا بلکہ اس عمل میں نقل مکانی کرنے والوں کی نہ صرف اپنے گھروں کو باعزت واپسی ہوئی بلکہ انھیں پراپر روزگار بھی ملا لیکن اسے اس دفعہ المیہ کہیے یا ریاست کی بدنصیبی۔ کہ اس دفعہ ہمارا سماج ہی اس نازک مسئلے پر بکھرا بکھرا اور تقسیم ہوا نظر آتا ہے جس سے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ اپنے آپکو کسی صورت مبرا قرار نہیں دے سکتی۔ ریاست صرف کسی ایک ستون پر کھڑی عمارت نہیں ہوتی اور نہ ہی ایک ستون ریاست کا بوجھ اٹھا سکتا ہے لہٰذا فکری سوچ ہمیں صرف یہ دعوت ہی نہیں دے رہی کہ اس نازک مسئلے پر دہشت گردی کے خلاف اس مجوزہ عزم استحکام ایکسائز پر ہماری توجہ صرف اس سوچ تک ہی محدود رہے کہ امن کا قیام صرف افواج کی ہی ذمہ داری ہے۔ یاد رہے جب سارا بوجھ ایک ہی ستون پر اتا ہے تو وہ عمارت گر جاتی ہے لہٰذا اب یہ وقت کی آواز ہے کہ تمام ستون اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھائیں۔