ہے کوئی نیکی کمانے والا

ایک حقیقت مجھے سونے نہیں دے رہی کئی دنوں سے اضطراب کا شکار ہوں پھر میں نے سوچا آپ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں شاید کوئی راستہ نکل آئے یہ کہانی ایک ایسے نوجوان کی ہے جو قابلیت کے باوجود روایتی بےحسی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں ضلع بہاولنگر کی تحصیل ہارون آباد کے نواحی گاوں سے ایک ایسا نوجوان نوکری کی تلاش میں لاہور آتا ہے جس کا باپ 2007 میں اس دنیا فانی سے چلا گیا تھا۔ اس کی ایک چھوٹی بہن ہے اور اس کا ایک چھوٹا بھائی جو پیدا ہی یتیم ہوا یعنی جب اس کے باپ کی وفات ہوئی وہ ماں کی کوکھ میں تھا۔ خاوند کی اچانک موت کے بعد اس قابل نوجوان کی ماں کو دو بچوں سمیت سسرال والوں نے گھر سے نکال دیا کہ اب تیرا خاوند نہیں رہا تو تم اپنے ان بچوں کو لے کر جہاں مرضی جاو اب ہم سے آپ کا کوئی رشتہ نہیں رہا۔ وہ بیوہ اپنے ان دو چھوٹے یتیم بچوں اور تیسرا جو ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا جو اس کی کوکھ میں تھا کو لے کر گاوں میں ہی کسی کے خالی پڑے مکان میں جا بسی اور اس کا یہ بڑا بیٹا جس کی اس وقت عمر ساڑھے سات یا آٹھ سال تھی۔ حالات اور تکلیفوں کی وجہ سے پریشانی کے عالم میں یہ پیدائش کے وقت سے ہی ذہنی طور پر ابنارمل تھا، اپنے دکھی خاندان پر ایک اور امتحان بن کر دنیا میں آیا۔گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے یہ بڑا بچہ اپنی سات آٹھ سال کی عمر سے ہی غلہ منڈی ہارون آباد میں آڑھتیوں کی دکانوں پر مزدوری کرنے لگ گیا۔اس بچے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا مگر وسائل نہ ہونے اور گھر کی پریشانیوں کی وجہ سے سکول تو نہ جا سکا مگر اس نے اپنے طور پر پڑھائی جاری رکھی اور کھیلنے کودنے کی عمر میں سارا دن مزدوری کر کے تھکن سے چور ہونے کے باوجود یہ بچہ اپنی نیند اور آرام کو قربان کر کے پڑھتا رہا اور پھر اس کے شوق اور ارادے نے اس بچے کا ساتھ دیا اور اس نے میٹرک کا امتحان ٹاپ کیا۔ پھر انٹر میڈیٹ میں ٹاپ کیا۔پھر گریجویشن میں ٹاپ کیا اور اب ایم اے سائیکالوجی کا امتحان دیا ہوا ہے۔ نتیجہ کا انتظار ہے۔ توقع ہے کہ یہ امتحان بھی نمایاں پوزیشن میں پاس کر لے گا۔مگر اس کے ساتھ ساتھ کبھی غلہ منڈی تو کبھی مکان بنانے والے مستریوں کے ساتھ مزدوری کر کے اپنا، اپنی ماں اور بہن بھائی کا پیٹ پال رہا ہے۔ مگر اس دوران اس بچے نے جہاں جہاں کوئی پرائیویٹ نوکری کی امید تھی وہاں وہاں کوشش کی مگر ہمارے اس ظالم سسٹم میں غریب ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ بھلے آپ کتنے ہی محنتی کیوں نہ ہوں بھلے آپ کے پاس کتنی ہی ڈگریاں کیوں نہ ہوں نوکری آپ کو تب ہی ملے گی جب آپ کے پاس بھاری بھرکم رشوت یا کوئی بڑی سفارش نہ ہو۔ چونکہ اس غریب کے پاس اس کی محنت اور ڈگریاں تو ہیں باقی دونوں میں سے کچھ بھی نہیں تھا تو زمانے کےدھکے اس کا نصیب ٹھہرے۔ 
گزشتہ دنوں لاہور سے کسی نے اسے بلوایا کہ آپ لاہور آجاو آپ کو نوکری مل جائے گی تو یہ غریب کسی سے ادھار پیسے پکڑ دھکڑ کر لاہور پہنچا تو بلوانے والے نے کہا ہم جاب دلوانے کی فیس وصول کرتے ہیں لہٰذا آپ کو ہمیں چار ہزار جمع کروانا ہوں گے۔اس نوجوان کے پاس کل چار ہزار ہی تھےجو اس نے نوکری کی امید پر ان کو دے دیے اور خود دو دن اور دو راتیں بھوکا اور پیاسا لاہور کے ایک پارک میں گزار کر جاب آفر کا انتظار کرتا رہا اور جب پیسے بھی نہ رہے نوکری بھی نہ ملی تو پھر کسی سے رابطہ کر کے منت ترلا کر کے واپسی کا کرایہ لے کر اپنی قسمت کا ماتم کرتے ہوئے اپنے گاوں واپس پہنچ گیا اور لاہور آنے کے لیے جو پیسے ادھار پکڑے تھے وہ بھی سر پر قرض چڑھ گیا۔ اب وہاں جا کر پھر محنت مزدوری پر جت گیا اور آج کل مکان بنانے والے مستری کے ساتھ گارا اور اینٹیں اٹھا رہا ہے کیونکہ فیملی کے لیے روٹی روزی کا بندوبست تو کرنا ہے۔
 عثمان حیدر کا رابطہ نمبر 03068639105 ہے اگر کوئی اس کی ملازمت کا بندوبست کر دے تو اس سے بڑی نیکی کوئی اور نہیں ہو گی وزیراعلی پنجاب کو چاہیے کہ وہ اس نوجوان کے دکھوں کا مداوا کرے۔ اگر کوئی وقتی طور پر ہارون آباد بہاولنگر میں باعزت روزگار فراہم کر دے تو اللہ اس کو بڑا اجر دے گا۔ اسی طرح کے ایک اور نوجوان حمزہ تنویر نے بھی مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ حمزہ تنویر باغبانپورہ لاہور کا رہائشی ہے ایف اے پاس ہے۔ کسی گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا تھا کافی مہینوں سے بےروزگار ہے والد رکشہ ڈرائیور ہے بیمار ہے اور آجکل کام کاج کرنے کے قابل نہیں۔ چھوٹا بھائی بیماری کے باعث انتہائی لاغر ہو چکا ہے والدہ کا انتقال ہو چکا ایک بےروزگاری اوپر سے گھر میں بیماری۔ ساری جمع پونجی علاج پر خرچ ہو چکی یہ نوجوان بھی رزق حلال کمانا چاہتا ہے
 اگر کوئی نیکی کمانا چاہے تو حمزہ سے 03072843625 پر رابطہ کرسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

مولانا محمد بخش مسلم (بی اے)

آپ 18 فروری 1888ء میں اندرون لاہور کے ایک محلہ چھتہ بازار میں پیر بخش کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کے ...