"اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش"۔

امریکی صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی ٹرمپ نے اپنی افواج کو ہر صورت افغانستان سے نکالنے کے فیصلے پر تیزی سے عملدرآمد کے راستے بنانا شروع کردئے۔ افغان نڑاد زلمے خلیل زاد کو اپنا مشیر تعینات کرنے کی وجہ سے اس کی حکومت کے طالبان سے روابط بہت تیزی سے استوار ہوچکے تھے۔ اشرف غنی حکومت اس تناظر میں قطعاََ لاعلم رکھی گئی۔ کٹھ پتلیوں کے ساتھ غیر ملکی حاکم مگر ایسا ہی رویہ اختیار کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ پاکستان تاہم امریکہ کو افغانستان کے دلدل سے نکالنے کے حوالے سے بدستور اہمیت کا حامل تھا۔ یہ اہمیت ٹرمپ کی نگاہ سے اوجھل نہ ہوئی۔ اسی باعث ان دنوں کے وزیر اعظم پاکستان کو اس نے اپنے ایک بااعتماد امریکی سینیٹر کے ذریعے واشنگٹن آنے کی دعوت دی۔
عمران خان وائٹ ہائوس پہنچے تو ٹی وی کیمروں کے روبرو خود کو ’’ڈیل میکنگ‘‘ کا گرو شمار کرتے ٹرمپ نے افغانستان کے بجائے کشمیر کا ذکر چھیڑدیا۔ اس کے کائیاں ذہن کو خبر تھی کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی دْکھتی رگ ہے۔ مذکورہ حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اس نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ہمیں ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی حیران کردیا کہ جاپان میں ہوئی ایک عالمی کانفرنس کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرمپ سے ایک نجی ملاقات کی۔ اس کے دوران امریکی صدر سے درخواست ہوئی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار ادا کرے۔ ’’ثالثی کی درخواست‘‘ کے محض ذکر کے بعد شاطر وچرب زبان ٹرمپ نے تاثر یہ دینا شروع کردیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
ٹرمپ کی گھڑی داستان سنتے ہوئے ہمارے وزیر اعظم اپنی خوشی چھپانے کی تگ ودو میں مصروف دکھائی دئیے۔ فرطِ جذبات سے مغلوب ہوئے فقط یہ فقرہ ہی ادا کرسکے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد دیتے ہوئے ٹرمپ خود کو جنوبی ایشیاء کے دو ازلی ملکوں میں آباد ڈیڑھ ارب انسانوں کے دل جیت لے گا۔ امریکہ سے وطن لوٹنے کے بعد ٹرمپ کے کشمیر کے بارے میں بیان کردہ خیالات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اپنی جماعت کے رہ نمائوں کے سامنے یہ اعلان کردیا کہ انہیں یہ محسوس ہورہا ہے کہ جیسے وہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر وطن پاکستان آئے ہیں۔
عمران خان کی خوشی اور طمانیت کے اس موسم میں یہ بدنصیب قلم گھسیٹ ٹی وی سکرینوں کے لئے ’’غدار وتخریب کار‘‘ افراد کی فہرست میں دھکیل کر بین ہوچکا تھا۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے مگر کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے صفحہ نمبر دو پر میرے کالم کے لئے نمایاں جگہ مختص کردی۔ اپنے قارئین کو اْکتادینے کی حد تک میں تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر فریاد کرنا شروع ہوگیا کہ ٹرمپ کے جھانسے میں نہ آیا جائے۔ وہ کشمیر پر ثالثی کا ناٹک رچاتے ہوئے درحقیقت پاکستان کو مجبور کررہا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے باہمی رشتوں کی سینکڑوں برس پرانی تاریخ بھلاتے ہوئے فی الوقت طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پربٹھانے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ میری فریاد حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے میں قطعاََ ناکام رہی۔
اْن دنوں روایتی سفارت کاری کے علاوہ قمر جاوید باجوہ کی ’’ملٹری ڈپلومیسی‘‘ کو بھی بہت سراہا جاتا تھا۔ میری دانست میں یہ اصطلاح ایک احمقانہ ترکیب تھی۔ اس کی تعریف میں لیکن ’’ذہن سازی‘‘ پر مامور اور ٹی وی سکرینوں کی بدولت عوام میں مقبول اینکر خواتین وحضرات نے ’’راگ درباری‘‘ کی بے شمار ٹھمریاں اور انترے ایجاد کئے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ اصطلاح کے موجد ا ور اس کا راگ الاپنے والوں کی اکثریت ان دنوں غیر ملکوں میں مقیم ہوئی عسکری اداروں اور قیادت کو ’’ڈیجیٹل ٹیررازم‘‘ کی یاد دلارہی ہے۔
پھکڑپن میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بنیادی موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے اصرار فقط یہ کرنا ہے کہ ٹرمپ نے چرب زباں چاپلوسی سے پاکستان کو امریکہ کی افغانستان سے جند چھڑانے کے لئے بھرپور انداز میں استعمال کیا تھا۔ اس کی مدد کرتے ہوئے ہم ’’ڈیل میکر‘‘ ٹرمپ سے اپنے لئے کچھ بھی حاصل نہ کرپائے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین صلح کا معاہدہ ہوجانے کے بعد ٹرمپ کی میعاد صدارت مکمل ہوگئی۔ اس کی جگہ آئے بائیڈن نے تاہم اس کی جانب سے طے ہوئے معاہدے پر عملدرآمد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کی تکمیل کے دوران امریکی افواج کو نہایت ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے نکلنا پڑا۔
افغانستان سے جو جہاز انہیں لے کر امریکہ جارہے تھے ان کے نچلے حصے سے کئی افغان چپک جانے کی وجہ سے فضا سے گرکر ٹکڑوں کی صورت زمین پر بکھرے۔ وہ مناظر ان دنوں یورپ کے تقریباََ ہر ملک میں دربدر ہوتی نوجوان افغان نسل بھلانے کو ہرگز آمادہ نہیں ہے۔ وہ اپنی دربدری اور نسلوں تک پھیلی ذلتوں کا ذمہ دار افغانستان کی اس چپقلش کو ہرگز نہیں ٹھہراتی جو سردار دا?د کی جانب سے افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے خلاف بغاوت سے شروع ہوئی تھی۔ دائود کا اقتدار نام نہاد ’’ثورانقلاب‘‘ کی بدولت 1978ء میں ختم ہوا تو ’’انقلابی حکومت‘‘ خلق اور پرچم نامی دھڑوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگی۔ بالآخر ’’کمیونزم بچانے‘‘ سوویت یونین کی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ ہمارے ہاں یہ کہانی پھیلائی گئی کہ ’’کمیونزم‘‘ کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا۔ پاکستان کو ’’دہریت‘‘ سے محفوظ رکھنے کے لئے لہٰذا افغانستان میں ’’جہاد‘‘ کی سرپرستی کا فیصلہ ہوا۔ اس کی بدولت سوویت یونین کی افواج  افغانستان سے نکل گئیں تو ’’مجاہدین‘‘ کے گروہ خلق اور پرچم کے ’’انقلابیوں‘‘ کی طرح ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا شروع ہوگئے۔ ان کی جگہ طالبان نمودار ہوئے اور القاعدہ کے ساتھ مل کر تمام عالم کو ’’مشرف بہ اسلام‘‘ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں نائن الیون ہوا۔ پاکستان کی ’’جغرافیائی اہمیت‘‘ امریکہ کو ایک بار پھر یاد آگئی۔ ہم نے اب افغانستان کو ’’دہشت گردوں کی آماجگاہ‘‘ تصور کرتے ہوئے امریکہ کا اسے سبق سکھانے کی جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ طالبان میں سے البتہ ’’اچھے‘‘ طالبان بھی ڈھونڈتے رہے۔ جنہیں ’’اچھا‘‘ سمجھ کر اپنایا تھا ان دنوں افغانستان میں پناہ گزین ’’برے‘‘ طالبان سے تعلق توڑنے کو آمادہ نہیں۔ وہ پاکستان کو بھی افغانستان بنانا چاہ رہے ہیں۔ پاکستان میں اس کی وجہ سے دہشت گردی کی نئی لہر نمودار ہوچکی ہے۔ دریں اثناء طالبان کی کامل واپسی کی وجہ سے دنیا میں دربدر ہوئے افغان نوجوان یورپی ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کو اپنے غضب کا نشانہ بنانا شروع ہوگئے ہیں۔ ’’اپنے بھی خفا  مجھ سے ہیں،  بیگانے بھی ناخوش"۔

ای پیپر دی نیشن