ملک میں آئینی بریک ڈاون کی باتیں ہو رہی ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی اس حوالے سے گفتگو کی تھی۔ ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ غیر یقینی کیفیت بہت زیادہ ہے۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اگلے لمحے کیا ہو جائے، اندرونی طور پر شرپسندوں کو کچلنے کی مہم بھی جاری ہے۔ سیاسی قیادت اس حساس اور براہ راست امن و امان سے جڑے معاملے میں بھی بہت تقسیم ہے، سیاست دان اسمبلیوں کے باہر ہڑتالیں کیے بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں بے چینی بھی بڑھے گی، عدم استحکام بھی ہو گا اور غیر یقینی کی کیفیت میں بھی اضافہ ہو گا۔ سیاسی قیادت ہمیشہ غیر جمہوری روئیے اپناتی ہے اور پھر جب ملک میں کوئی اور نظام حکومت ہوتا ہے تو چیختے چلاتے ہیں۔ آج بھی وہی حالات ہیں۔ ایک مرتبہ پھر سیاسی قیادت تقسیم ہے اور سیاسی قیادت کے فیصلے چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ کوئی ہے جو ملک سنبھالے، کوئی ہے جو بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پائے، کوئی ہے جو معیشت سنبھالے، کوئی ہے جو مہنگائی پر قابو پائے، کوئی ہے جو امن و امان کو برقرار رکھے، کوئی ہے جو سمگلنگ روکے، کوئی ہے جو ملک کی آمدن و اخراجات میں توازن قائم رکھے۔ ہمارے اردگرد جو نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک چلانے میں ناکام ہیں۔ صوبوں کی حالت دیکھیں حقوق کی بات سب کرتے ہیں فرائض کی طرف کوئی آتا نہیں، اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی جو ذمہ داریاں تھیں کیا وہ نبھائی گئی ہیں، کیا وفاق کا ساتھ دینا صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری نہیں، کیا وفاق کو مضبوط بنانے کے لیے کردار ادا کرنا صوبوں کی ذمہ داری نہیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا صوبائی حکومتوں نے اپنا کردار نہیں نبھایا یہی وجہ ہے کہ وفاق کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ غیر جمہوری طاقتوں کو حکومت میں آنا چاہیے، لیکن کیا آپ ہر وقت کی افراتفری، ہر وقت کی بے چینی، ہر وقت کے عدم استحکام کے ساتھ ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔ کیا نظام کی اہمیت ریاست سے زیادہ ہے، یقینا نہیں ملک کامیابی سے چلانے کے لیے یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ کون سا نظام حکومت ہمارے لیے بہتر ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم جمہوری نظام حکومت کو روتے رہیں اور ریاست کی بنیادوں کو کمزور کرتے رہیں۔ جنہیں آئینی بریک ڈاؤن کا خوف ہے انہیں ملک میں اداروں کے کمزور ہونے اور معیشت ڈوبنے کا خوف کیوں نہیں، انہیں مہنگی بجلی کا خوف کیوں نہیں کھا رہا، انہیں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی سے خوف کیوں نہیں آتا ۔ یہ جو اسمبلیوں کے باہر ہڑتالیں کر رہے ہیں یہ علامتی بھوک ہڑتالیں کرنے، ملک بند کرنے والوں کو قوم کے بھوکے بچوں اور بند ہوتے کاروبار کا خیال کیوں نہیں آتا۔ یہ کیسی قیادت ہے جس کو اپنی سمت کا کچھ علم نہیں، یہ کیسے رہنما ہیں جو خود ہر وقت راستہ ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ یہ لڑنے جھگڑنے والے سیاست دان کیسے قوم کو متحد کر سکتے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کو لگتا ہے کہ اگر ان کی حکومت کہیں جارہی رہی ہے اور اگر وہ اس خوف میں ہیں اگر حکومت ختم ہو گئی تو کیا ہو گا، کہیں دوبارہ مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے تو سکون کا سانس لیں کیونکہ سینیٹر فیصل واوڈا لے مطابق موجودہ حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے۔ ملک میں آئینی بریک ڈاون جیسا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ سو ملک کے وزیر دفاع اور ان کی جماعت کو بھی خوش ہونا چاہیے۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ ریاست سب سے اہم ہے۔ اگر ریاست کے لیے مشکلات ہوتی ہیں تو پھر جو ریاست کا بہترین مفاد ہو وہی فیصلہ ہوتا ہے۔
اب ذرا توہین عدالت کے بیانات یا اس حوالے سے سیاسی قیادت کے تقاضوں کر نظر دوڑائیں تو واضح طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں بھی سب یہی چاہتے ہیں کہ سیاسی مخالفین پر توہین عدالت کی کارروائی ہو، کوئی بھی ایسا راستہ نکلے کہ سیاسی مخالف کا ہر راستہ بند ہو جائے۔ گذشتہ دنوں پی ٹی آئی رہنما زین قریشی نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ججز کے حوالے بیان پر توہین عدالت کی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اب یہ بیان بہت تکلیف دہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاسی جماعتوں کی اہم شخصیات کے سینے میں دل نہیں ہے۔ یہ ہر وقت کیوں سیاسی مخالفین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سوچ کو فروغ دیتے ہیں، یہ کیوں ایسے بیانات جاری کرتے ہیں جن سے انتشار پھیلے، یہ کیوں ایسے بیانات جاری کرتے ہیں۔ یہ جب حکومت میں ہوتے ہیں سوچ اور ہوتی ہے اور جو آج حکومت میں ہیں یہ جب حزب اختلاف میں تھے ان کی سوچ اور تھی۔ یہ جو ملک میں جگہ جگہ انسانوں کی توہین ہو رہی ہے اس کا علاج کون کرے گا۔ کیا سیاسی قیادت کو پاکستان کے شہریوں کے بے حرمتی کا کوئی احساس ہے، وہ جو روزانہ ہسپتالوں میں خوار ہوتے ہیں، وہ جو سرکاری دفتروں میں روزانہ دھکے کھاتے ہیں، وہ جو سڑکوں پر رسوا ہوتے ہیں، وہ جنہیں حکومت کی مقرر کردہ اجرت نہیں ملتی، وہ جنہیں بڑھاپے میں کوئی پوچھنے والا نہیں، وہ جو ڈگریاں ہاتھوں میں لیے روزگار کی تلاش میں خوار ہوتے ہیں، وہ بچے جنہیں اچھی غذا نہیں ملتی۔ کیا یہ منتخب قیادت کی ناکامی نہیں کہ ان کے ووٹرز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ وہ بچے جن کی عمر لکھنے پڑھنے اور کھیلنے کی ہے ان کے ہاتھوں میں قلم کتاب کے بجائے گاڑیاں صاف کرنے کا کپڑا ہے ۔ ان کے بچپن کی توہین پر کسی کے خلاف کارروائی کا کوئی امکان ہے۔ خدارا بند کریں یہ ڈرامہ اصل کام پر توجہ دیں۔
زین قریشی اور ان جیسے تمام سیاست دان جو ایسے بیانات پر پوائنٹ سکورنگ کرتے ہیں کاش وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض پر توجہ دیں تو شاید ووٹرز کی ہر گھڑی ہونے والی توہین میں کمی آ سکے۔ کاش کوئی احساس کرے لیکن مجھے اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ ووٹرز کی اہمیت صرف ووٹ کے دن کی حد تک ہی ہے۔
آخر میں احمد امتیاز کا کلام
کہاں سے چلے تھے
محبت کی بارش میں ہم
بھیگتے بھیگتے
اور کہاں آگئے
خبر ہی نہیں تھی
کسی موڑ پر
عمر بھر کے لئے
اک اذیت لہو میں اتر جائے گی
روح زخمِ جدائی سے بھر جائے گی اب
مگر دکھ بھری حیرتیں پوچھتی ہیں بتا
اتنی لمبی مسافت میں
اک دوسرے کے لئے
یہ سہولت بھی ارزاں نہیں کر سکے
چار بالشت کا فاصلہ درمیاں
اپنی ہلکی سی جنبش کی آغوش میں
کیوں نہیں بھر سکے