اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سابق نگران وزیر تجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ ایف پی سی سی آئی نے آئی پی پیز کے معاہدوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹویٹر ایکس پر اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا ہے کہ چیمبرز آف کامرس نے آئی پی پیز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ ہے، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) پاکستان کی کاروباری برادری کی اعلیٰ نمائندہ ہے، ایف پی سی سی آئی معزز سپریم کورٹ میں باضاطہ طور پر پٹیشن دائر کرے گی کہ وہ اس ناقابل برداشت صورتحال میں مداخلت کرے جو ہر پاکستانی کے حق زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ گوہر اعجاز نے کہا کہ آئی پی پی معاہدوں کے تحت، پاکستان اربوں روپے ان کمپنیوں کو ادا کرتا ہے جو بجلی پیدا نہیں کرتیں، مہنگی بجلی تمام پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکی ہے، بجلی کی زیادہ قیمت شہریوں کو غربت میں دھکیل رہی ہے اور کاروباروں کو دیوالیہ کر رہی ہے۔ سابق وزیر تجارت کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان چند برس میں ایک ہی غلطیاں دوبارہ نہیں برداشت کر سکتا صرف اس لیے کہ نئے ’’سرمایہ کاروں‘‘ کا ایک گروپ کچھ نہ کرنے کے عوض پیسہ کمانا چاہتا ہے۔ ادھر صارفین کی نمائندہ تنظیم کیپ نے صارفین کے ریلیف کے لیے حکومت کو 15نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے آئی پی پیز کو صرف ان کی پیداوار کے تناسب سے ادائیگیاں کرکے فی یونٹ پاور ٹیرف میں 25روپے کی فوری کمی کا مطالبہ کردیا۔ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سربراہ کوکب اقبال نے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا ہے کہ صارفین کو اضافی مالیاتی بوجھ سے تحفظ دینے کے لیے آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدوں پر قومی سلامتی کے تناظر میں نظر ثانی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں ناجائز اضافے سے عوام خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بینک تمام بینکوں کو ہدایت کرے کہ وہ عوام کو سولر پینل کی خریداری کیلئے بلا سود آسان اقساط پر قرضے فراہم کریں تاکہ قدرتی وسائل سے بجلی حاصل کرکے پاکستان کے صارفین کو کم قیمت پر بجلی دستیاب ہو۔ تمام شعبوں میں کام کرنے والے افسران اور عملے کو بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں دی جانے والی مراعات فوری طور پر واپس لی جائیں۔ ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس سمیت دیگر وزراء کو ملنے والی مراعات اور شاہانہ اخراجات میں نمایاں کمی کی جائے۔ کم آمدنی اور تنخواہ دار طبقے پر بالواسطہ ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے اشرافیہ کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ ڈیری سمیت اشیائے ضروریہ پر عائد ٹیکس ختم کیا جائے، گوشت کی قیمت غریب اور متوسط طبقہ کی دسترس میں لائی جائے۔ دالوں کی قیمتیں 80 سے 100 روپے تک محدود کرتے ہوئے آٹا، چاول ودیگر اہم اجناس کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکنے کے لئے مطلوبہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔