سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں ان لوگوں کی مداخلت کی وجہ سے قانون پر عملداری پروان نہیں چڑھ سکی جن کو پاکستان پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں، سپریم کورٹ کے پاس غیر آئینی اقدامات یا آئین کی پامالی کو تحفظ دینے کا کوئی اختیار کبھی نہیں رہا اور اگر ججز ایسا کرتے ہیں تو یہ اُن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ امریکہ میں نیویارک بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میموگیٹ کیس ایسا نہیں تھا جو سپریم کورٹ کو لینا چاہیے تھا، وہ ایگزیکٹو کے ڈومین پر سپریم کورٹ کی جانب سے تجاوز کیا گیا، پاکستانی سفیر کو غدار ڈکلیئر کیا گیا جو کہ بلکل درست نہیں تھا منتخب وزیراعظم کو گھر بیجھا گیا یہ سب عدلیہ کا کام نہیں تھا، اس لیے ججوں کا آزاد ہونا بہت ضروری ہے، عدلیہ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت سے متعلق خط لکھنے والے 6 میں سے 5 ججوں کو میں نے تلاش کر کے اُن کی تقرری کی سفارش کی تھی۔ جسٹس اطہرمن اللہ کہتے ہیں کہ بطور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ 9 اپریل کی رات کو عدالت کھولنے کی وجہ یہ تھی کی ملک میں مارشل لا لگانے کی باتیں کی جا رہی تھیں اور جب ایسی صورت حال ہو تو تمام عدالتوں کو رات کو کھل جانا چاہئیے، جنہیں میری عدالت کے علاوہ کہیں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تھا آج وہ بھی میرے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، میری بیوی کا ساسیت سے کوئی لینا دینا نہیں مگر اس کے باوجود ان پر ڈاکومنٹری بنا کر سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی جس کی معلومات حکومتی اداروں سے لی گئیں مگر یہ سب بطور جج چیلنج ہے اور یہ ایک آزاد جج کا ٹیسٹ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوم بہت لچک دار قوم ہے، قوم نے پچھلے 76 سالوں میں بہت مشکلات کا سامنا کیا ہے، قوم نے لاقانونیت اور آمرانہ حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی ہے لیکن قوم کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے جب بیرونی دنیا ان آمرانہ حکمرانی والوں کی توثیق کرتی ہے، امریکہ کے جمہوریت کے بارے کچھ اصول ہیں، امریکہ جمہوریت کو ویلکم کرتا ہے لیکن کسی ڈکٹیٹر کو ویلکم نہیں کرتا لیکن پتہ نہیں کیا ہوا بش نے اپنے اصول بھلا کر مشرف کو ریڈ کارپٹ دیا اور بھرپور ویلکم کیا۔