آرکیٹکٹس کا سالانہ میلہ

’ہر کہ آمد عمارت نو ساخت‘ ہمیں آرکیٹکٹس کی سالانہ نمائش میں ایک متاثر کن خوبصورت نمائش کو دیکھ کر یاد آیا۔ قیام پاکستان سے لے کر عصر حاضر تک کے فن تعمیر اس نمائش میں موجود ہیں اور پورے پاکستان کے ساٹھ سالہ فنِ تعمیر کو یوں پیش کیا گیا ہے جیسے دریا کوزے میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ممتاز سیاستدان مصور سردار آصف علی نے نمائش کا افتتاح کیا۔ پوری نمائش دیکھنے کے بعد ایک حیرت انگیز تاثر پیدا ہوتا ہے کہ باقی شعبوں میں تو ہم نے پاکستانی ثقافت کو فروغ دیا ہے لیکن پاکستانی فنِ تعمیر ایک الگ حیثیت سے کہیں نظر نہیں آتا۔ دلچسپ بات ہے کہ اسلامی فنِ تعمیر نے دنیا بھر سے اپنے فن کا لوہا منوایا اور دنیا نے تسلیم کیا کہ اگر دنیا کے تمام عمارتی فن پارے نمائش میں رکھے جائیں تو سب سے زیادہ جلال و جمال اسلامی فنِ تعمیر میں نظر آتا ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد جہاں ہماری سیاست خوبصورتی اور تناسب کے اجزا سے پاک ہوئی وہیں فنِ تعمیر بھی باقی شعبوں کی طرح متاثر ہوا۔ لاہور کی ساٹھ سالہ تعمیرات پر ایک نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اسلامی اور جدید طرزِ تعمیر کی سب سے خوبصورت عمارت ایوانِ اقبال نظر آتی ہے اس کی تعمیر و تکمیل میں بھی جناب مجید نظامی اور شیخ رؤف احمد مرحوم ریٹائرڈ اکاؤنٹینٹ جنرل کا ہاتھ ہے۔ نیر علی دادا نے بہت سی خوبصورت عمارات کے خاکے تیار کئے لیکن حکومت نے اتنے ذہین آدمی کی تخلیقی قوتوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھایا اور پاکستانی فنِ تعمیر کے نشان بہت کم نظر آتے ہیں۔ آرکیٹیکٹس کے میلہ میں جہاں نمائش تصویروں کی ہے تو دوسری طرف عمارات کی تعمیر میں استعمال ہونے والے جدید ساز و سامان کے سٹال بھی لگائے گئے ہیں اور نظریات و خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے پورے پاکستان سے آئے ہوئے سکالرز اپنے مقالے بھی پیش کرتے رہے اور ایک دوسرے کے تجربات سے نئی باتیں بھی سیکھتے رہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...