”مشرف ہٹاﺅ.... موج اڑاﺅ“

نواز خان میرانی ۔۔۔
جو لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر مجھ سے طویل بحث و مباحثہ کرتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو سیاست کرنا نہیں آتی بالآخر مجھے قائل کرنے کی کوشش میں کچھ نہ کچھ حد تک کامیاب ہوتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں سیاست اور منافقت دو الگ چیزیں نہیں بلکہ سب سے طویل عرصے تک پاکستان میں حکمرانی کرنے والے تو اسی گر کو آزماتے اور عوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ آخر تاریخ سے بھی تو کچھ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ نہیں۔
ایک دفعہ شیخ رشید سے میں نے پوچھا تھا کہ ”کیا وجہ ہے کہ آپ سمیت الطاف حسین اور قاضی حسین احمد سے لیکر ولی خان تک سب میاں نواز شریف کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن گئے تھے“ تو انہوں نے سگار کو ایک ہی کش میں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ”وہ یاروں کے یار ہیں“ اور میں نے منافقانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف دل میں کہا کہ کاش آپ بھی کسی کے یار ہوتے۔ حالانکہ مجھے تو دل میں یہ سوچ ہی نہیں لانی چاہئے تھی کیونکہ اگر نہیں یاری دوستی نبھانی آتی تو وہ آج اس عمر میں کنوارے نہ پھرتے اور کسی ایک کے ہو کر رہ جاتے‘ میری بات کی تائید لالو پرشاد بھارت کے وزیر ریلوے اور ”عورت پرشاد سے“ مشرف ضرور کریں گے اور شاید مشرف کی والدہ تو انکا نام سنکر ہی سیخ پا ہو جائیں گی اور جب شیخ رشید وزیر ثقافت تھے‘ اس وقت سے حساب لگانا شروع کریں تو پھر تو شاید بے شمار مونث گواہان کی لسٹ تیار ہو جائے گی۔ مگر چونکہ انکی گواہی آدھی مانی جاتی ہے لہٰذا ”مونث الٰہی“ کے بزرگوں کے فرمودات کے مطابق شیخ رشید کی کنوارگی اور آوارگی پر مٹی پاﺅ کہ جو شخص اپنی والدہ محترمہ کی خواہش پر پورا نہ اترا ہو وہ کسی کو خاک خوش کریگا۔
خیبر پی کے‘ ہزارہ اور مانسہرہ کے مسائل اور کیپٹن صفدر کی خواہشات سے صرف نظر کرتے ہوئے‘ ہندو‘ مسلم‘ سکھ‘ عیسائی‘ قادیانی بھی بھائی بھائی کو نظر انداز کرتے ہوئے زرداری سے مفاہمت کی وجہ کا سراغ لگانا چاہیں تو پھر سراغ رساں کتوں اور سراغ رسانی کے اداروں کی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی اور سیدھا سیدھا سا دماغ اس جانب چلا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ کسی بھی قیمت پر‘ چونکہ وہ قیمت ادا کرنے کے خدا کے فضل سے قابل ہیں کہ مشرف سے سولہ اٹھارہ کروڑ کو یرغمال ہونے سے بچانا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اغوا کرنے‘ اور یرغمال بنانے والے منہ مانگی قیمت مانگتے ہیں‘ چونکہ کمانڈو نے بندوق کے زور سے آئین‘ قانون‘ اخلاق‘ اصول و ضوابط حتیٰ کہ عزت نفس‘ خودداری‘ غیرت‘ حمیت‘ عزت‘ وقار سب کچھ یرغمال بنا لیا تھا لہٰذا اس وقت کی یہ سوچ عوامی تھی اور عوام کی بے پناہ تائید‘ تائید ایزدی بنکر انہیں کامیابی سے ہمکنار کر گئی۔
مگر مشرف سے نجات دلانے والے نے اسکی منہ مانگی قیمت وصول کی۔ چونکہ قیمت وصول کرنے والے کا تعلق سندھ سے ہے۔ وہاں تاوان ادا کرنا‘ اور پیر پگاڑو جیسے بزرگوں کی سیاست سے متاثر ہو کر وقفے وقفے سے اپنی قیمت وصول کرنا تو ایک معمول کی بات ہے۔ اب جبکہ نئی اصطلاحات کے مطابق اور جدید ترامیم کے تواتر سے نمک حلال اور نمک حرام میں کوئی فرق باقی نہیں رہا تو پھر جہاں ظہرانے اور عصرانے کسی کام نہ آتے ہوں وہاں ناشتوں پر بلائے جانے والے ”مخبر“ کسی کام نہیں آتے۔ بلکہ ہمارے ملک کی روایات تو یہ ہیں کہ مخبر اپنی مخبری کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ چاہے وہ محکمہ پولیس کے ہی مخبر کیوں نہ ہوں۔
مشرف ہٹاﺅ.... موج اڑاﺅ کی قیمت ادا کرنا بہت ہی بڑا المیہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسن اور حسین نواز شریف تو سیاست سے کوسوں دور ہیں لیکن حمزہ شہباز جیسی نسلوں کو بھی اس مفاہمت کی قیمت کی ادائیگی کرنی ہو گی اسی لئے بابر اعوان ہر قیمت پر نواز شریف کو اسمبلی کے اندر دیکھنا چاہتے ہیں۔ شاید یہ ایسی مفاہمت کا معاہدہ تھا کہ جسکی ادائیگی وقفے وقفے سے قسطوں میں سود در سود کے حساب سے ادا کرنی ہو گی مگر قائداعظمؒ کی سیاست تو ایسی نہیں تھی!!!
عوام یہ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک کے دوران گریبان کھول کر کفیں چڑھا کر‘ ڈائس سے شیشے ہٹوا کر کبھی ترنم سے اور کبھی رندھی اور کبھی گرجدار آواز سے حزب اختلاف کا حق ادا کرنے والے‘ خدا سے کئے گئے وعدوں کو یاد رکھیں‘ کیونکہ خلق خدا کی آواز نقارہ خدا ہوتی ہے!!!

ای پیپر دی نیشن