پنجاب اسمبلی کا اجلاس حسب روایت ایک گھنٹہ بیس منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکررانا مشہود کی صدارت میں شروع ہوا۔ایوان میں میں آج ضمنی بجٹ پر بحث کا دن تھا لیکن اراکین پنجاب اسمبلی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا گیا اور اراکین کی ایک بڑی تعداد اسمبلی میں موجود نہیں تھی۔ اپوزیشن کے ایک رکن کرنل ریٹائرڈ شبیر جب پریس گیلری میں آئے تو چند ارکان کی جانب سے نقطہ اعتراض اٹھایا گیا جس پر سردار ذوالفقار کھوسہ نے کہا کہ نئے اراکین اسمبلی کی تربیت کے لیے پروگرام ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مسلم لیگ نون کی رکن سکینہ شاہین کی جانب سے بے نظیر انکم فوڈ سپورٹ سکیم پر تنقید کی گئی جس پرپیپلز پارٹی کی ساجدہ میر نے کہا کہ اگر بے نظیر سیاست میں نہ آتیں تو وہ بھی گھر بیٹھ کر روٹیاں پکا رہی ہوتیں ۔ پیپلز پارٹی کی رکن رفعت سلطانہ ڈار نے کہا کہ خواتین اراکین کو بھی اسمبلی ہاسٹلز میں کمرے الاٹ ہونے چاہییں کیونکہ کسی خاتون کا ہوٹل میں رہنا معیوب لگتا ہے۔ اس کے بعد شیر علی گورچانی کی جانب سے قاف لیگ کے قائدین پر تنقید کی گئی تو قاف لیگی خواتین نے انکے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔۔یپلز پارٹی کی صغیرہ اسلام نے الزام لگایا کے شیخوپورہ کے ڈی پی او رانا شاہد اور مسلم لیگ نون کے رکن پنجاب اسمبلی علی اصغر منڈا کی وجہ سے علاقہ اشتہاریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے ۔ جب علی اصغر منڈا نے جواب دینے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قاف کی خواتین نے اتنا شور مچایا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی جس پر سپیکر غصے میں آگئے اور ثمینہ خاور حیات کو کاروائی کی دھمکی بھی دی ۔جس کے بعد بجٹ اجلاس پیر کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا ۔