اب آخر میں رسول حمزہ کی ان نظموں کے تراجم پیش کرتا ہوں جو ”سرِوادی سینا“ اور ”نسخہ ہائے وفا“ میں شامل ہیں۔
یہی تراجم ظ انصاری کے تراجم کی کتاب میں شامل ہیں۔اس سلسلہ میں ہر نظم کے ساتھ میں نے ضروری نوٹ دے دیا ہے۔
ترجمہ نگار :فیض احمد فیض
میں تیرے سپنے دیکھوں
برکھا برسے چھت پر، میں تیرے سپنے دیکھوں۔۔۔ برف گرے پربت پر،میں تیرے سپنے دیکھوں
صبح کی نیل پری،میں تیرے سپنے دیکھوں۔۔۔ کویل دھوم مچائے،میں تیرے سپنے دیکھوں
آئے اور اُڑ جائے،میں تیرے سپنے دیکھوں۔۔۔ باغوں میں پتے مہکیں،میں تیرے سپنے دیکھوں
شبنم کے موتی دہکیں،میں تیرے سپنے دیکھوں
اس پیار میں کوئی دھوکا ہے۔۔۔ تو نار نہیں کوئی اور ہے شے
ورنہ کیوں ہر ایک سمے۔۔۔ میں تیرے سپنے دیکھوں
نسخہ ہائے وفا:۹۶۴،۰۷۴، سرِ وادی سینا:۵۹،۶۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔
بھائی
آج سے بارہ برس پہلے بڑا بھائی مِرا۔۔۔ اسٹالن گرا کی جنگاہ میں کام آیا تھا
میری ماں اب بھی لیے پھرتی ہے پہلو میں یہ غم۔۔۔ جب سے اب تک ہے وہی تن پہ ردائے ماتم
اور اس دُکھ سے مِری آنکھ کا گوشہ تر ہے۔۔۔ اب مِری عمر بڑے بھائی سے کچھ بڑھ کر ہے
نسخہ ہائے وفا:۱۷۴، سرِ وادی سینا:۷۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔ظ۔انصاری کے ترجمہ والی کتاب میں اس نظم کے چوتھے مصرعہ میں ”تن پہ ردائے ماتم“کی جگہ ”تن میں ردائے ماتم“ درج ہے۔
داغستانی خاتون اور شاعر بیٹا۔۔۔ اس نے جب بولنا نہ سیکھا تھا
اس کی ہر بات میں سمجھتی تھی۔۔۔ اب وہ شاعر بنا ہے نامِ خدا
لیکن افسوس کوئی بات اس کی۔۔۔ میرے پلے ذرا نہیں پڑتی
نسخہ ہائے وفا:۲۷۴، سرِ وادی سینا:۸۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں یہ نظم ”ماں اور بیٹا“کے عنوان سے شامل ہے۔
بہ نوکِ شمشیر
میرے آباءکہ تھے نا محرمِ طوق و زنجیر۔۔۔ وہ مضامیں جو ادا کرتا ہے اب میرا قلم
نوکِ شمشیر پہ لکھتے تھے بہ نوکِ شمشیر۔۔۔ روشنائی سے جو میں کرتا ہوں کاغذ پہ رقم
سنگ و صحرا پہ وہ کرتے تھے لہو سے تحریر
نسخہ ہائے وفا:۳۷۴، سرِ وادی سینا:۹۹
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں یہ نظم” نوکِ شمشیر“ کے عنوان سے شامل ہے۔
سالگرہ
شاعر کا جشنِ سالگرہ ہے، شراب لا۔۔۔ منصب،خطاب،رُتبہ انہیں کیا نہیں ملا
بس نقص ہے تو اتنا کہ ممدوح نے کوئی۔۔۔ مصرع کسی کتاب کے شایاں نہیں لکھا
نسخہ ہائے وفا:۵۷۴، سرِ وادی سینا:۱۰۱
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں بھی یہ نظم ”سال گرہ“ کے عنوان سے شامل ہے۔
تیرگی جال ہے اور بھالا ہے نور
اک شکاری ہے دن،اک شکاری ہے رات۔۔۔ جگ سمندر ہے جس میں کنارے سے دور
مچھلیوں کی طرح ابنِ آدم کی ذات۔۔۔ جگ سمندر ہے،ساحل پہ ہیں ماہی گیر
جال تھامے کوئی، کوئی بھالا لیے۔۔۔ میری باری کب آئے گی کیا جانیے
دن کے بھالے سے مجھ کو کریں گے شکار۔۔۔ رات کے جال میں یا کریں گے اسیر؟
نسخہ ہائے وفا:۷۷۴، سرِ وادی سینا:۳۰۱
سرِ وادی سینا میں یہ نظم بلا عنوان شامل ہے، جبکہ ظ انصاری کے ترجمہ کی کتاب”منظوم ترجمے: ظ انصاری“۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں بھی یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔
نسخہ الفت میرا
گر کسی طور ہر اک الفتِ جاناں کا خیال۔۔۔ شعر میں ڈھل کے ثنائے رُخِ جاناں نہ بنے
پھر تو یوں ہو کہ مِرے شعر و سخن کا دفتر۔۔۔ طول میں طولِ شبِ ہجر کا افسانہ بنے
ہے بہت تشنہ مگر نسخہ الفت میرا۔۔۔ اس سبب سے کہ ہر اک لمحہ فرصت میرا
دل یہ کہتا ہے کہ ہو قربتِ جاناں میں بسر
نسخہ ہائے وفا:۸۷۴، سرِ وادی سینا:۴۰۱
”منظوم ترجمے: ظ انصاری“ ۔دارالاشاعت ماسکو مطبوعہ ۴۷۹۱ءمیں یہ نظم کسی عنوان کے بغیر شامل ہے۔