اسلام آباد (ثناءنیوز + آن لائن) ملک میں نئے وزیراعظم کا انتخابی عمل مکمل ہو گیا۔ تجزیہ نگاروں، مبصرین اورسیاسی مدوجزر پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ پھر صدر زرداری کی مفاہمتی گولی اپنا اثر دکھا گئی ہے۔ یہ گولی کا ہی تیر بہ ہدف نسخہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے دو وزیراعظم ایوان سے منتخب ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں وزرائے اعظم کو منتخب کرنیوالی سیاسی طاقتیں الگ الگ تھیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق مارچ 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جمہوری پٹڑی پر اپنے سفر کا آغاز کیا تواس کے پاس اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اکیلے اسے دھکیل سکتی۔مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ف) اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں ۔اس وقت پیپلزپارٹی کے حریف تھے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم۔ چوبیس مارچ 2008ءکو حکمراں اتحاد کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی کیلئے میدان میں اتارا گیا ۔ نتائج آئے تو یوسف رضا گیلانی کو ملی 264 ووٹوں کی دو تہائی اکثریت جبکہ حریفوں کی جانب سے کھڑ ے ہونے والے امیدوار چودھری پرویزالٰہی کو ملے صرف 42 ووٹ ۔ اس طرح یوسف رضاگیلانی وزیراعظم بن گئے ۔ملک میں جمہوری ٹرین کا سفر چل نکلا ۔صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ نہ جانے کون سی مفاہمتی گولی لگی کہ ن لیگ نے ساتھ چھوڑا تو ایم کیو ایم آ گئی ۔ ایم کیو ایم نے ساتھ چھوڑا تو ق لیگ آ گئی۔ جے یو آئی ف چھوڑ کر گئی تو ایم کیو ایم دوبارہ آ گئی۔ ٹرین چلتی رہی لیکن پیپلزپارٹی کے ساتھی بدلتے رہے۔ جون 2012ءآیا ۔ پیپلزپارٹی کو پھر نئے وزیراعظم کا انتخاب کرنا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کل جن لوگوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف امیدوارکھڑے کئے تھے انہوں نے ہی آج پیپلزپارٹی کے دوسرے وزیر اعظم کو منتخب کر ادیا جبکہ کل جنہوں نے پہلا وزیراعظم منتخب کرایا تھا آج ان کے امیدوار ہی پیپلزپارٹی سے شکست کھا چکے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق حکومت کی مدت مکمل ہونے میں 240 کے قریب دن باقی ہیں۔ مگر اس وزیراعظم کے سر پر بھی جو تلوار لٹک رہی ہے وہ ہے عدلیہ کے حکم پر من و عن عملدرآمد۔ صدر آصف علی زرداری واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھنے کو پیپلزپارٹی کے وارثوں کی قبروں کے ٹرائل کے مترادف سمجھتے ہیں اور پارٹی یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ یہ خط نہیں لکھے گی۔ یہی وہ وقت تھا جس پر وزیراعظم گیلانی ڈٹے رہے تآنکہ ان کے ساتھ سابقہ کا لاحقہ نہیں لگ گیا۔ نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے پاس بھی اس حوالے سے ”کھیلنے“ کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ بقول مبصرین کے، انہیں یا تو فاروق لغاری بننا ہے یا پھر یوسف رضا گیلانی جیسے انجام سے دوچار ہونا ہے۔ درمیان کا راستہ فی الوقت نظر نہیں آرہا۔ اس سارے عمل میں انہیں کتنے دن ملیں گے، بقول تحریک انصاف کے رہنماءسابق جسٹس وجیہہ الدین کے 30 سے 90 دن۔