جیالا

Jun 24, 2013

جسٹس (ر) فخر النساءکھوکھر

سندھ کے ریٹائرڈ غریب ملازم کا سترہ اٹھارہ سال کا بیٹا سونو پیپلزپارٹی کے پُرجوش جیالوں میں سے تھا۔ وہ پارٹی کی ہر تقریب،فنکشن اور مظاہرے میں شریک ہوتا۔ کراچی کارساز ریلی پر دھماکہ میں وہ بال بال بچا دماغ میں ٹیومر کے باعث اسے میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی ایک دن مجھے فون آیا میڈم آپ فخز النساءہیں میں نے جواب دیا ہاں میڈم آپ فریال سے بات کریں مجھے نوکری دلوائیں، بھئی آپ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں آپ خود کیوں نہیں ان مقتدر لوگوں سے ملتے، میڈم کوئی MNA ہمارا فون نہیں اٹھاتا اور میڈم فریال سے ملنا تو ایک خواب ہے ۔ کچھ عرصے بعد پھر فون آیا میڈم میرے سر میں اور پیٹ میں بہت درد ہوتا ہے ۔ ڈاکٹروں نے کہا ہے شاید مجھے سر میںٹیومر ہے.... مجھے جھٹکا لگا پھر میں نے اس سے سی وی منگوائی وہ گاہے بگاہے مجھے فون کرتا تھا۔ نیا سال آ رہا تھا مجھے ہزاروں لوگوں نے مبارک دی مگر سونو کا کوئی مبارک کا پیغام نہیں تھاتقریباً ہفتہ بعد رات کے تین بجے فون آیا میں نے فون اٹھایا۔ میڈم میں مر رہا ہوں میں آغا خان کراچی میں ہوں آپ مجھے مرنے سے پہلے ملیں۔ فون بند ہوگیا میں نے دوبارہ فون کیا اس مرتبہ اس کی والدہ نے فون اٹھایا میں سونو کی والدہ ہوں۔سونو بے ہوش ہوگیا تھا اسے آغا خان لائے پتہ لگا اس کا ٹیومر دماغ میں پھٹ گیا وہ ہفتہ سے لائف مشین پر تھا .... آج ہوش میں آتے ہی اس نے موبائل مانگا اور آپ کو فون کیا۔ حیران ہوں اسے نمبر کیسے یاد رہا۔ دوسرے دن میں نے اسمبلی میں چھٹی کی درخواست دی کراچی کی ٹکٹ لے کر میں آغا خان ہسپتال پہنچی میں نے پہلی مرتبہ سونو کو دیکھا میں نے خاموشی سے جو کچھ کر سکتی تھی کیا۔ مجھے بتایا گیا کہ تمام ڈاکٹر اس خدائی معجزہ پر حیران ہیں کہ یہ بچہ قومے سے کیسے نکل آیا ۔ میں سونو سے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ملی اس کی بڑی آنکھوں میں شکریہ اور محبت کے جذبات تھے۔ اس رات میں نے جھولی پھیلا کر اللہ سے سونو کی زندگی مانگی اور دعا کی ایک ماں کی گود اجڑنے سے بچا لے۔ اللہ نے میری دعا سن لی واپسی اسلام آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا ۔ سونو نے موت کو پھر شکست دے دی اور میڈیکل ہسٹری کو بھی اسلام آباد آنے سے پہلے میں اس کے ڈاکٹر سے ملی اُس نے پوچھا کہ آپ مسیحا بن سکتی ہیں میں نے کہا کیوں نہیں تو پھر اس بچے کو خوشیاں اور زندگی کی اُمید دو۔ پھر سونو ایک بار زندگی کے جھمیلے میں تھا اس ٹائم وہ شدت سے اس بات کا شکار تھا کہ اس کے والدین نے گھر گروی رکھ کر سود پر پیسہ اٹھایا اور اس کے علاج پر لگایا۔ وہ نوکری کر کے اس پیسہ کو اتاُرنا چاہتا تھا اس نے پرائیویٹ انٹر میڈیٹ بھی کرنا شروع کیا۔ میڈم میں بڑا آدمی بنوں گا۔ میں اُس کا سی وی لے کر وفاقی وزیر احمد مختار کے پاس گئی اس نے سی وی لیا اور انتہائی حقارت سے ایک طرف پھینک دیا ”میٹرک“ مگر یہ بچہ برین کینسر کا شکار تھا میں سندھی ایم این ایز کے پاس گئی اور بالخصوص عذرا پلیجو صدر مملکت کی بہن کے پاس یہ تمہارا جیالا ہے پاگل پن کی حد تک ۔ ”سب ایسے ہی کہتے ہیں“ جاموٹ کے پاس جاو¿ وہ اس علاقے کا ایم این اے ہے میں اس کے پاس گئی اس نے سرگوشی میں بتایا کہ ”یہ لوگ ہمیں نوکریاں نہیں دیتے میرے پاس دو نوکریاں تھیں میں نے دے دیں۔ میرے کانوں میں ڈاکٹر کی آواز گونجی ”اسے جینے کی اُمید دو“ پھر مجھے یاد آیا تو میں نے ایک انکوائری میں بائیس گریڈ کے افسر کو اس کی جائز پروموشن دلوانے کے لئے ایک مثبت رپورٹ لکھی جسے ہائی کورٹ نے غور کرتے ہوئے اس کی رٹ منظور فرمائی۔ میں نے بہت عرصے بعد اُسے فون کیا اور کہا کہ میں ایک ایسے بچے کے لئے سفارش کرتا چاہتی جسے ”جینے کی اُمید چاہیے، اور پھر سونو کو نوکری مل گئی مگر وہ فیکٹری اس کے گھر سے 17 کلو میٹر دور تھی۔ وہ سردیوں میں پانچ بجے اٹھتا تھا چھ بجے بس لیتا تھا اور نوکری پر جاتا تھا۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو کاغذات میں بیت المال میں دے آئی بیت المال نے اسے پچیس ہزار کا چیک دیا تھا۔اور پھر یہ اس کے گھر والوں کی غفلت تھی یا اُس کی ضد۔ وہ پیپلز پارٹی کی ایک ریلی میں چلا گیا اس دن وہ بہت خوش تھا وہاں اسے دل کا دورہ پڑا اس نے قے کی وہ جلدی جلدی گھر آ رہا تھا اس کے ہاتھ میں پیپلز پارٹی کا جھنڈا تھا۔ گھر سے کچھ دور ہی وہ ٹوٹی ہوئی گلی میں دھڑام سے گرا اور دم دے دیا اس کی مٹھی میں پارٹی کا جھنڈا تھا، اُس کے جنازے پر کوئی اہم شخصیت نہ آئی البتہ علاقے کے ایم این اے کو معلوم ہوا کہ پنجاب سے ایک ایم این اے آئی ہے تو وہ اپنے حواریوں کے ساتھ اس کے گھر میں آیا وہ حیران تھا یہ گلی کون بنوا رہا ہے.... وہ گلی تو سونو بنوا رہا تھا جو پارٹی کا ورکر تھا وہ لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا وہ پارٹی جسے بڑے سے بڑا ڈکٹیٹر نہ ہلا سکا اس کی بنیادوں میں بھٹو خاندان کا لہو شامل تھا آج اس بُری طرح شکست اور ریخت کا شکار ہوئی ہے ۔ اقتدار کے نشے میں چُور لوگوں نے فراموش کر دیا کہ بھٹو کی خاطر کتنے لوگوں نے اپنے اوپر تیل چھڑک کر موت کو اپنے سینے سے لگایا۔ مجھے یاد ہے کوٹ لکھپت جھیل میں مجھے لوگ بتاتے تھے کہ وہ لوگ جو شاہی قلعے میں بند تھے کوئلوں سے دیواروں پر بھٹو کا نام لکھتے لکھتے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ یہ لوگ اور پاکستان کے عوام کتنے سمجھدار ہیں ایک مرتبہ بی بی کی شہادت کا ووٹ دیا تھا مگر دوسری مرتبہ ان کی کارکردگی کی آزمائش تھی۔ حکمرانی کے مزے لینے والوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ چھت جس پر بیٹھ کر وہ حکمرانی کرتے ہیں ان جیالوں کی شہادتوں سے بنی ہے۔ سُنا ہے حیدر آباد کی شامیں بہت خوبصورت ہیں نرم نرم ہوا اور دریا کا کنٓارا بہت سندر ہوتا ہے۔ یہ اسی دریا کے کنارے ایک قبرستان ہے جس میں سونو کی کچی قبر موجود ہے جس کے کتبے پر سندھی زبان میں لکھا ہے یہاں لوگوں سے پیار کرنے والا بچہ دفن ہے۔ ایک جیالا جس کی مٹھی میں مرتے وقت پیپلز پارٹی کا جھنڈا تھا۔ 

مزیدخبریں