پچاسی کروڑ سے بننے والی کینال روڈ تجربوں کی بھینٹ

ڈی سی او فیصل آباد عوام کی آواز بھی سنیں۔۔۔
تحریروترتیب۔ احمد کمال نظامی
بیوروچیف نوائے وقت
فیصل آباد کو جدید اور ماڈل شہر بنانے کی خواہش اور منصوبہ بندی اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتی جب تک ہماری  ضلعی حکومت جدید اور ماڈل شہر بنانے پر عمل پیرا نہیں ہوتی۔ آج کل اتھارٹی پر اتھارٹی بناتے جاؤ اور افسروں کی ایک فوج پیدا کر لو۔ لیکن ان اتھارٹیز کے قیام سے مسائل حل ہونے کی بجائے اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔ انتظامیہ نے اپنی نااہلی کے باعث طارق آباد ریلوے پھاٹک کو دیوار برلن بنا کر دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ریلوے پھاٹک کے نام پر جو گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے دیوار بن کر طارق آباد اور عبداللہ پور کے لوگوں کے درمیان بنی ہوئی ہے۔ عوام کے برسوں کے مطالبات اور احتجاج کے باوجود نہ تو ریلوے انتظامیہ ٹس سے مس ہوتی ہے اور نہ ضلعی انتظامیہ  اس مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے ، شہریوں کے بنیادی حقوق کے چارٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو طارق آباد ریلوے پھاٹک کی برسوں سے بندش شہری حقوق پر شب خون ہے۔ ڈی سی او نورالامین مینگل اور ڈویژنل کمشنر محمد اکرم جاوید ایسی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں جس سے فیصل آباد ایک جدید ماڈل اور ترقی پذیر شہر کی شکل میں نظر آئے گا۔ طارق آباد ریلوے پھاٹک کو جن مقاصد کے حصول کے لئے پاکستان ریلوے نے 20برسوں سے بند کیا ہوا ہے اور اس کی بندش سے عوام کو کیا ریلیف فراہم کرنا مطلوب ہے۔  طویل عرصہ سے طارق آباد پھاٹک کی بندش کے ساتھ ہی سانگلہ ہل چک جھمرہ روڈ کو طارق آباد سے منصور آباد کی آخری حد تک ریلوے لائن کے ساتھ جس قدر اراضی  ہے اسے فلتھ ڈپو میں تبدیل کر رکھا ہے ،پورے علاقہ کی گندگی اور کوڑاکرکٹ کو ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ پھینکا جاتا ہے اس سے،جو لوگوں کی صحت پر اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی کوئی ٹرین اس لائن سے گزرتی ہے تو اپنی تیزرفتاری کے باعث گردوغبار کا ایک طوفان بھی اٹھاتی ہے اور یہ تمام گردوغبار طارق آباد کے جو مکانات ریلوے لائن کے ساتھ تعمیر ہیں ان گھروں میں داخل ہوتا ہے  اس گردوغبار سے بعض گندگی کی وجہ سے فضا بھی مکدر ہو جاتی ہے جو بیماری کا باعث بنتی ہے لوگوں نے اعلیٰ افسران سے مطالبہ کیا ہے کہ برسوں سے بند اس پھاٹک کو فوری کھولا جائے جو ایک طویل ترین فلتھ ڈپو فیصل آباد کے ماتھے پر بدنما داغ  ہے ڈی سی او  فوری طور پر اس کا خاتمہ کرائیں اور پابندی عائد کی جائے کہ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ کوئی گندگی اور کوڑاکرکٹ نہیں پھینکا جائے۔ ایک طرف تو انتظامیہ نے اپنی ناقص پالیسی کی بناء پر طارق آباد سے عبداللہ پور پیپلزکالونی، مدینہ ٹاؤن وغیرہ علاقوں کی طرف جانے والوں کا طارق آباد ریلوے پھاٹک کی بندش سے راستہ روکا ہوا ہے  دوسری طرف پیدل افراد کو ٹریفک کے اژدہام سے محفوظ رکھنے اور آسانی آنے جانے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے ایک کی بجائے دو اوورہیڈبرج عبداللہ پور میں تعمیر کئے گئے ہیں ایک تو مکمل ہو چکا ہے جبکہ دوسرا جو کہ گورنمنٹ میونسپل ڈگری کالج کے سامنے تعمیر ہو رہا ہے اس کی تعمیر بہت  سست ہے حالانکہ اس اوورہیڈ کی تعمیر رواں مالی سال میں مکمل ہونا چاہیے تھی جس کے خاتمہ کے ابھی چند یوم باقی ہیں۔ عبداللہ پور چوک میں جو اوورہیڈبرج تعمیر کیا گیا ہے اس سے بھرپور انداز میں گورنمنٹ گرلزپرائمری سکول کی طالبات اور وہ خواتین استفادہ کریں گی جو چوک عبداللہ پور میں پرہجوم ٹریفک کی بناء پر سڑک پار کرنے میں شدید دشواری سے دوچار ہوتی تھیں۔ کہاجاتا ہے کہ میونسپل ڈگری کالج کے سامنے تعمیر ہونے والے اوورہیڈبرج کی جلد تعمیر میں رکاوٹ محکمہ واپڈا بنا ہوا ہے اور فلائی اوور سے کچھ  فاصلے پر واپڈا کی گیارہ ہزار وولٹیج کی تاریں گزر رہی ہیں۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیرعلی اس ضمن میں آ کر اپنا کردار ادا کریں تو یہ فلائی اوور جلد مکمل ہو سکتا ہے۔  عوام انتظامیہ کی اس منطق کو نہیں سمجھ پا رہے کہ ایک طرف فلائی اوور تعمیر کر کے عوام کو سہولت فراہم کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف عوام ایسی پابندیاں بھی عائد کی جا رہی ہیں جس کی ٹریفک سائنس اجازت ہی نہیں دیتی۔  86کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی کینال روڈ ان دنوں ہمارے تجربہ گاہ بنی ہوئی ہے اور سابق ہمدرد یونیورسٹی چوک سے کینال روڈ گٹ والا موڑ تک آنے جانے والی ٹریفک قدم قدم پر سپیڈ بریکر تعمیر کر کے تباہ کیا جا رہا ہے۔ جس سے بعض اوقات ٹریفک کے حادثات بھی جنم لے رہے ہیں ۔ فیصل ہسپتال سے چوک چھوٹی ڈی گراؤنڈ پیپلزکالونی تک بے ڈھنگے انداز میں ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں یہ حکمت عملی کون سے نبردجمہروں نے تیار کی ہے۔ شہریوں نے نوائے وقت اور وقت نیوز ٹی وی سروے کے موقع پر ڈی سی او  اور ڈویژنل کمشنر سے مطالبہ کیا ہے کہ عبداللہ پور انڈرپاسز پر جو ٹریفک پلان تبدیل کر دیا گیا ہے اسے فوری طور پر منسوخ کر کے سابق طریقہ کار پر ٹریفک کو چلنے دیا جائے۔ نئی حکمت عملی پلان سے سگنل فری ٹریفک کی افادیت ختم ہو گئی ہے۔ اگر ہمارے انجینئرز نے  تجربات ہی کرنے تھے تو پھر عبداللہ پور انڈرپاسز بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ لہٰذا عوام کے مطالبہ پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے جن خامیوں اور خرابیوں کی عوام نشاندہی کر رہے ہیں ڈی سی او  اس کے سدباب کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور ہو سکے تو موقع پر کھلی کچہری لگائیں اور سنیں کہ عوام کیا کہتے ہیں اور نئے اقدامات سے عوام کن دشواریوں سے دوچار ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ عوام کی آواز کو دبانے کی بجائے پیدا ہونے والی خامیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن