میری مراد ریاست ِ مدینہ کا قیام ہے جس کے بانی خدا کے آخری پیغمبر اور دینِ آدم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے ہادی ء اعظم حضرت محمد ﷺ تھے۔
یہ بڑا دلچسپ اتفاق ہے کہ سرزمین حجاز جہاں آفتاب اسلام طلوع ہوا کرہ ارض کا واحد خطہ تھا جہاں نہ تو کبھی کوئی روایتی بادشاہت قائم ہوئی اور نہ ہی کبھی حتمی فرماں روا پیدا ہوا۔ آنحضرتؐ کے زمانے میں بھی حجاز میں نہ تو کوئی تخت تھا اور نہ ہی کوئی تاجدار ۔ سیاسی اقتدار قبائلی سرداروں اور موروثی طور پر طاقتور خاندانوں کے ہاتھوں میں تھا۔ ریاست کے روایتی تصور کا کوئی وجود نہیں تھا۔سب سے پہلی ریاست حجاز کی سرزمین پر مدینہ میں قائم ہوئی جو اتنی تیزی کے ساتھ پھیلی کہ بنی نوع انسان کا مقدر بن گئی۔پیغمبروں میں آنحضرتؐ سے پہلے حکمرانی کا افتخار یااعزاز صرف حضرت دائود علیہ السلام اور حضرت سلیمان ؑ کو حاصل ہوا تھا۔ مگر ان کی حکومتیں یا ریاستیں روایتی ملوکیت کی خصوصیات کی حامل تھیںمملکت یا حکومت میں سلطانیٔ جمہور کے تصور نے پہلی بار ریاستِ مدینہ کے ذریعے ہی حقیقت کا روپ دھارا۔ حاکمیت اگرچہ خدا کی تھی مگر آنحضرتؐ نے ایک نبی کی حیثیت سے حکومت کرنے کے خدائی اختیار کو استعمال کرنے کا افتخار خدا کے نیک بندوں میں سب سے مقبول موزوں اور مستحق بندے کو دے دیا ۔
ریاست ِ اسلامیہ کے سب سے پہلے سربراہ آنحضرت ؐ خود تھے۔ آپ ؐ کے بعد سربراہی کا حق و افتخار اپنی تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ حضرت ابوبکر ؓ کے کندھوں پر آن پڑا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنے جانشین کا تقرر آنحضرت ؐ نے خود نہیں کیا تھا۔ اس بات میں منشائے خداوندی پنہاں تھی۔ اگر آپؐ خود خلیفہ کی نامزدگی کرتے یا خلیفہ اپنے خاندان میں سے کسی کو بناتے تو ’’منشائے خلقِ خدا ‘‘ کو معاملات ِ مملکت میں کبھی اہمیت حاصل نہ ہوتی۔ اسلام میں ریاست اور حکومت دونوں کی تشکیل میں اولین اہمیت منشائے خداوندی کی ہے اور اِسکے بعد اہمیت ’’ منشائے خلقِ خداوندی ‘‘ کی ہے۔
ریاست مدینہ کے قیام سے لیکر حضرت علی ؓ کی شہادت تک مندرجہ بالا ’’ اصولِ حکمرانی‘‘ پر عملدرآمد بڑی سختی کے ساتھ کیا گیا۔ مگر اسکے بعد اقتدارٗ خلقِ خدا کی منشاء کے امانت داروں کے ہاتھوں سے نکل کر واپس طاقتور امراء اور ان کے خاندانوں میں چلا گیا۔مسلمانوں کی باقی ساری تاریخ ملوکیت اور ملوکوں کی تاریخ ہے۔ اگر میں اِسے امت محمد یؐ کی سب سے بڑی بدقسمتی کہوں تو غلط نہیں ہوگا۔آج جب احیائے اسلام اور سطوتِ ہلال کی طرف واپسی کی باتیں ہورہی ہیں تو ہمارے سامنے چیلنج ان اصولوں اور قواعد و ضوابط کو واپس لانے کا ہے جن کی بنیاد پر ریاست ِ مدینہ قائم ہوئی تھی۔ہم یہ عظیم تجربہ اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نہیں کرسکتے تو کہیں اور نہیں کرسکتے۔ ہمیں بھول جانا چاہئے کہ ہم کبھی برطانوی سامراج کی ایک نو آبادی تھے۔ ہمارے سامنے دورِ جدید کا کوئی قابلِ توجہ او ر قابلِ تقلید رول ماڈل موجود ہے تو وہ امریکی جمہوریت کا رول ماڈل ہے۔ 1973ء کا آئین یورپ کے اس فرسودہ نظام پر مبنی ہے جسے 1956ء میں جنرل ڈیگال نے مسترد کرکے فرانس کو ایک نیا آئین اور نیا نظام دیا تھا۔
ملک میں جس انقلاب کی باتیں ہورہی ہیں وہ فرانس کے 1789ء کے انقلاب کی تقلید کرکے نہیں فرانس کے 1956ء کے انقلاب کی تقلید کرکے لایا جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی رہنمائی کے لئے ہمارے سامنے ہماری اپنی تاریخ موجود ہے ۔ میری مراد یہاں اُس تاریخ سے ہے جو 622 سے شروع ہو کر شہادت علی ؓ پر ختم ہوئی تھی۔ضرو رت ہمیں صرف ایک ڈیگال کی ہے۔ (ختم شد)
ہمیں انقلاب چاہئے مگر کون سا؟
Jun 24, 2014