یادشِ بخیر ’’پاکستان میں کیا ہونے جا رہا ہے‘‘ گذشتہ ہفتے اپنے اس کالم میں پاکستان کو درپیش مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا ذمہ دار حکومت کی نادانیوں کو قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور خدا کی طرف سے دی گئی عقل کا استعمال شروع نہ کیا تو وہ سب کچھ ہونے کی قوی امکانات نظر آنے لگے ہیں جن کے نتیجے میں پاکستان کی چولیں ہل سکتی ہیں۔ حکومت مخالفین قوتیں اکٹھی ہو چکی ہیں اور ان کے مقابلے میں حکومت اسمبلیوں میں اکثریت رکھنے کے باوجود تنہا تنہا نظر آنے لگی ہے۔ منہاج سیکرٹریٹ میں خون کی جو ہولی کھیلی گئی جس کے نتیجے میں درجن بھر انسانی جانیں ضائع ہوئیں کیا اس کے ذمہ دار شہباز شریف یا نواز شریف ہیں، نہیں ہرگز نہیں کیونکہ جس نواز اور شہباز شریف کو میں عرصہ سے جانتا ہوں خوفِ خدا رکھنے والے انسان ہیں۔ کوئی بھی مسلمان بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ ماڈل ٹائون لاہور میں جو پولیس گردی کی گئی اس کی تاریں کہیں اور ہی سے ہلائی گئی تھیں۔
شہباز شریف پر سانحے کی ذمہ داری ڈالنے والے چلے ہوئے کارتوس ہیں جن کا واحد مقصد حکومت گرانا اور حکومت کو فیل کرنا ہے اور بس۔ ان فصلی بٹیروں اور چلے ہوئے کارتوسوں کو جمہوریت راس نہیں آ رہی، ہضم نہیں ہو رہی۔
طاہر القادری اتنی بڑی بلا نہیں جتنا اسے حکومتی نادانیوں نے بنا دیا ہے۔ کیا ضرورت پڑی تھی ماڈل ٹائون میں پنگا لینے کی۔ اگر یہ پنگا نہ لیا ہوتا تو میں یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی اس کی آمد سے لاتعلق رہتے۔ یہ سب کِیا دھرا ماڈل ٹائون میں ہونے والی زیادتی کا ہے جس سے شیخ رشید اور چودھری برادران ایسے لوگ سیاسی فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔ گلو بٹ نے ثابت کر کے دکھایا کہ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں اور ورکروں کی اکثریت جاہلوں پر مشتمل ہے۔ شہباز شریف ایسے مضبوط وزیر اعلیٰ کو آج جو سبکی برداشت کرنا پڑ رہی ہے ۔
شہباز شریف نے حکومتی خفت مٹانے کیلئے اور مخالفین و متاثرین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے بے شمار مشکل فیصلے کئے ہیں۔ رانا ثنااللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کو عہدوں سے ہٹا دینا معمولی قدم نہیں ہے۔ شہباز شریف کے ان اقدامات سے صاف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کو احساس ہے کہ ماڈل ٹائون میں زیادتی ہوئی ہے اسی لئے تو انہوں نے اپنے دو چہیتوں کی قربانی دے ڈالی ہے مگر اس کے باوجود آگ پر تیل ڈالنے والے لوگ مسلسل سرگرم ہیں۔ ان عقل کے اندھوں کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں کہ پاکستان پہلے ہی حالت جنگ میں ہے۔ پاک فوج ایک احساس آپریشن میں مصروف ہے۔
یہ وقت ہے پاک فوج کا ساتھ دینے کا۔ پاک فوج کے ہاتھ مضبوط کرنے کا مگر یہ بد بخت و بے حس لوگ فوج کو کنفیوژ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو موجودہ فوجی آپریشن ہضم نہیں ہو پا رہا اور یہ ہر وہ حربہ استعمال کرنا چاہتے ہیں جو آپریشن کو کنفیوژکرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ سچ بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو موجودہ فوجی آپریشن ہضم نہیں ہو پا رہا اور یہ ہر وہ حربہ استعمال کرنا چاہتے ہیں جو آپریشن کو کنفیوژ اور کمزور کرے۔
زیر نظر کالم کی اشاعت تک طاہر القادری کا کٹی کٹا نکل چکا ہو گا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ طاہر القادری کے پاکستان آنے کا مقصد کیا ہے۔ مشکل سوال نہیں جواب سیدھا ہے کہ وہ حکومت اور نظام گرانے آ رہے ہیں۔ ان کے پاس وہ کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کر پائیں گے۔ یہ راز کوئی نہیں جانتا البتہ ایک سچ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کینیڈین شہزادہ کوئی مضبوط آشیرباد حاصل کئے بغیر پاکستان نہیں آ سکتا۔ وہ یہاں پر وہ کام اور حرکت کرے گا جو حکومت کو گوارا نہیں ہوتی۔
یہاں ضرورت ہے حکومت کو عقل استعمال کرنے کی۔ مخالفین کی سرگرمیوں کا توڑ نہایت تحمل کے ساتھ کرنا ہو گا۔ جوش سے زیادہ ہوش کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ گلو بٹ جیسے لوگوں سے خود کو دور رکھنا ہو گا حکومت کو اپنے مشیروں پر نظرثانی کرنا ہو گی اور یہ اشد ضروری ہے اور ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن کے عام لوگوں کو ریلیف ملے کیونکہ اگر حکومت عام آدمی کو ریلیف نہ دے سکی تو مخالفین کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔
میں شہباز شریف کو ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ غریب اور عوام دوست انسان ہیں مگر ان کی حکومت اور جماعت میں بیٹھے ہوئے گلو بٹ ان کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں اور یہ گلو بٹ ہی تمامتر بُرائیوں کے ذمہ دار ہیں اور یہ امر خادم پنجاب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔