قارئین میرا آج کا موضوع تو گلو بٹ تھا مگر میں اپنے کالم کے آخری الفاظ ضابطہ تحریر میں لا رہا تھا کہ ملکی تاریخ کا سیاسی ہائی جیکنگ کا دوسرا بڑا واقعہ رونما ہو گیا۔ اس سے پہلے 12 اکتوبر 1999ء کے دن آج کے وزیراعظم جو اس وقت بھی وزیراعظم تھے کولمبو سری لنکا سے اُڑنے والے پی آئی اے کے طیارے جس میں اس وقت کے پاک فوج کے سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف سوار تھے کو سبکدوش کر کے اس کے طیارے کو کراچی لینڈنگ کی اجازت نہ دی جس کو پاک فوج کے افسران نے اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ آج پھر اسی وزیراعظم کے عہد میں جس نے 9 سال جلاوطنی کاٹی پھر ویسی ہی حرکت کر دی اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دبئی سے آنے والے طیارے کو جس نے اسلام آباد لینڈ کرنا تھا، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زبردستی لاہور لینڈنگ پر مجبور کر دیا گیا۔ اُس وقت بھی ردعمل کے طور پر میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کی گئی اور آج بھی ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ساتھیوں کی درخواست پر حکمرانوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جا سکتی ہے۔ ایک طرف تو حکومت وقت اور ان کے حواری واویلا کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہمیں طاہر القادری کے پاکستان آنے پر کوئی اعتراض نہیں اور ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں لیکن دوسری طرف گذشتہ ایک ہفتے کے دوران لاہور میں کم از کم 30 انسانی لاشیں گرائی گئیں۔ بہیمانہ تشدد انقلاب پسندوں کے جسموں پر چسپاں کر دیا گیا اور گذشتہ دو دنوں سے پاکستان کے ہر شہر اور قصبے کے ہزاروں کارکنان کو چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا جبکہ اور گذشتہ دو دن سے موٹر ویز، جی ٹی روڈ اور قومی شاہراہیں بند کر کے ریاستی جبر کا ثبوت دیا گیا ہے۔ صرف راولپنڈی شہر اور اس کے اطراف میں سینکڑوں ٹن سوئی گیس کے شیل برسائے گئے۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاستی وسائل کو ذاتی اقتدار بچانے کیلئے بے دریغ استعمال کرنا کہاں کی جمہوریت ہے؟ قارئین اب تک کی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور ائر پورٹ پر لینڈنگ کے بعد طیارے سے باہر آنے پر انکار کر دیا ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ پاک فوج کے مقامی کور کمانڈر ان کی اور سینکڑوں جانوں کی حفاظت کے لیے میدان میں آئیں۔ اتنے میں جھورا جہاز جو میرے پاس بیٹھ تھا بولا وڑائچ صاحب ’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ آخر ایک دن انقلاب پسند کامیاب ہوں گے اور جبر کی یہ سیاہ تاریک رات ختم ہو ہی جائے گی۔ اب تھوڑا گلو بٹ کے حوالے سے بات ہو جائے ۔گلو بٹ کردار بیک وقت وفا اور بدمعاشی کا استعارہ ہے ۔ یہ اپنے سرپرستوں کے حکم پر کسی کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے اور کبھی تو اپنے آقا کی آن پر زد پڑتے دیکھ کر انتہائی قدم اُٹھا لیتے ہیں۔ زمانہ قدیم سے امراء اور حکمران وقت سمیت جاگیر دار، سرمایہ دار، چوہدری اور وڈیرے اپنے پاس کن ٹُٹے رکھنے کے عادی ہیں، ہر سر اٹھانے والے کی ٹھکائی کرنا اور اس کی زبان بند کروانے کیلئے ان پالتو بدمعاشوں کا بڑاکردار رہا ہے۔پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں ایسے ہی کچھ کرداروں کیلئے ایک نئی اصطلاح استعمال کی گئی اور انہیں ’’نان اسٹیٹ ایکٹر‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔ موجودہ دور میں سیاسی جماعتوںو قائدین نے اپنی سکیورٹی کے نام پر ایسے کرداروں کی فوج بنائی ہوتی ہے اور جن دنوں ’’صاحب‘‘ اسلام گئے ہوتے ہیں تو یہی کردار اپنے سپورٹروں کے چھوٹے موٹے کام لوکل لیول پر کرواتے ہیں۔ گذشتہ دنوں سانحہ ماڈل ٹائون لاہور میں درجنوں کارکنان کو شہید کر دیا گیا اور نجی ٹی وی چینلز پر مسلسل دکھایا گیا کہ لاہور کا ایک بدمعاش جسے پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے بلکہ ایک ’’فوٹیج‘‘ میں دکھایا گیا ہے کہ گلو بٹ پولیس کے لائو لشکر کے آگے قائدانہ انداز میں چل رہا ہے اور پھر نعرہ تکبیر بلند کرکے معصوم کارکنان پر دھاوا بولتا ہے۔ بعد ازاں شواہد ملے ہیں کہ گلو بٹ نہ صرف بھتہ خور ہے بلکہ خادم اعلی کا خادم لاہور ہے اور مغلیہ شاہی دربار سے ’’شیر لاہور‘‘ کا خطاب یافتہ ہے۔ یہ گلو بٹ صوبائی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ و گورنر ہائوس کا باقاعدہ وزیٹر ہے اور اعلیٰ سِول و انتظامیہ کا منظور نظر ہے۔ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر ایک اینکر نے انکشاف کیا کہ گلو بٹ کو ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے کو ’’ٹھکانے‘‘ لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جو ایئر پورٹ پر اس کو موقع نہ مل سکا جس کا غصہ گلو بٹ نے دوسرے دن درجنوں گاڑیوں اور دکانوں کی توڑ پھوڑ کرکے نکالا۔ اس دن کئی گلو بٹ نمک حلالی کرتے رہے جن کی ایک ایک کر کے فوٹیج سامنے آ رہی ہیں۔ انہی نان اسٹیٹ ایکٹروں کی بدولت لگتا ہے الیکشن 2013ء کے نتائج کو پنکچرز لگائے گئے۔ ایسے متعدد کریکٹر آپ کو روزمرہ کی زندگی میں نظر آئیں گے۔
اکثر گلو تو صرف روٹی کپڑا اور جام کی بوتل کے عوض اپنے آقائوں کے پھنسے ہوئے کام خوبصورتی سے سرانجام دیتے ہیں۔ سانحہ لاہور کے پیچھے حقائق کیا ہیں؟ یہ تو وقت آنے پر پتہ چل جائے گا۔ مگر معاشرے کو ان گلوئوں سے گلو خلاصی کرانا ہو گی اور ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک نظام نہ بدلا جائے۔ چہرے بدلنے سے گلو بٹ سے گلو ڈالہ یا گلو خواجہ، گلو میاں یا گلو رانا ہو جائے گا۔ اگر ایسا سانحہ کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو پورے معاشرے کو شکستہ ہو جاتا، ملک کا سربراہ مستعفی ہو جاتا۔ مگر جس معاشرے میں گلو جیسے بدمعاش گل کھلاتے رہیں گے اس معاشرہ میں جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنا ایک فیشن سے زیادہ کچھ نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ حکمران اپنی گردن بچانے کیلئے پھندے سے اپنا سر نکال کر گلو بٹ کا سر پھنسا دیں گے یا چند پولیس والوں کو معطل کر کے معاملے پر مٹی پائو کا کھیل کھیلیں گے۔ سانحہ لاہور اور گلوبٹ کی کارروائی سے ایک بات تو کلیئر ہو گئی ہے کہ جمہوریت کا واویلا کرنے والے صرف ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہیں۔ شہدائے انقلاب کے بہائے گئے خون بہا کا تقاضہ ہے کہ معاشرے کو گلو بٹوں سے پاک کیا جائے اور ملک میں ایسا انقلاب لایا جائے جہاں ہر شخص کو انصاف اور روزگار ملے۔