مجھے ڈاکٹر طاہر القادری سے قریب کرنے میں میرے محترم ایڈیٹر ڈاکٹر مجید نظامی کا اہم کردار ہے، کئی برس قبل کی بات ہے ۔میں ایک روز ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا ، میںنے اپنی ویب سائٹ ملت ڈاٹ کام پر موجود مواد انہیں دکھایا، وہ تجسس کے ساتھ میری باتیں سنتے رہے، میں چپ ہوا تو انہوں نے استفسار کیا کہ اس پر ڈاکٹر طاہر القادری کی تفسیر تو نہیں ہے۔ میںنے کہا کہ وہ بے حد ضخیم ہے اور کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کے میڈیا آفس سے استدعا کر چکا ہوں کہ اسے سی ڈی پر منتقل کر کے مجھے دے دو، یہ ان کی کاہلی ہے۔نظامی صاحب نے کہا کہ ا ٓپ سیدھے ڈاکٹر صاحب سے فرمائش کریں ۔ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا ، اب نہ صرف یہ تفسیر مجھے مل چکی ہے بلکہ ان کی سینکڑوں دیگر نادر تصانیف کا ذخیرہ بھی میں اپ لوڈ کر چکا ہوں جن کے لنک دینے کا عمل جاری ہے۔
ڈاکٹر قادری کی پاکستان میں تو ایک مسلمہ حیثیت سبھی کے علم میں ہے مگر میںنے بیرون ملک ان کے پر جوش پیرو کاروں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے، فرانس ان سے بھرا پڑا ہے، بلجیئم میںیہ ہر جگہ نظر آتے ہیں، ہالینڈ کی خوبصورتی میں ان کے خیالات کاحسن بھی شامل ہے، پرتگال،سپین میں ان کے جم غفیر موجود ہیں، رودبار انگلستان پار کر جائیں بر طانیہ، ناروے، ڈنمارک غرضیکہ مجھے یہ لوگ جاپان میں بھی ملے،ملایئشیا،سنگاپور اور تھائی لینڈ بھی ان سے خالی نہیں۔شمالی امریکہ میں تو خود ڈاکٹر صاحب کی موجودگی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ یہ بر اعظم ان کا کتنا مضبوط گڑھ ہو گا۔
روئے زمین پر اتنی بڑی طاقت کے ہوتے ہوئے میںنہیں سمجھتا کہ ڈاکٹر صاحب کو کسی غیبی طاقت کی پشت پناہی کی ضرورت ہو یا وہ فرشتوں کے پروں کی پھڑ پھڑ اہٹ سننے کے لئے بے چین رہتے ہوں۔
لاہورائر پورٹ پر جب انہوںنے کہا کہ وہ فوج کی حفاظت میں باہر نکلنے کو تیار ہیں تو جیسے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، ن لیگ نے سوشل میڈیا پر وہی گھسا پٹا پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنا اصل پتا شو کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج ہر شخص کی نظریں پاک فوج کی طرف اٹھتی ہیں اور یہ ایک معجزہ ہے جو پینسٹھ کی جنگ کے بعد ایک بار پھر ظہور پذیر ہوا ہے۔درمیان میں یحی خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کی وجہ سے پاک فوج کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا رہا، مگر ایک صحافی پر مبینہ فائرنگ کے بعد جب آئی ایس آئی اور ساتھ ہی پوری فوج کو نشانہ بنایا گیا تو پوری قوم بنیان مرصوص بن کر اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔زخمی صحافی کے ساتھ حکومت وقت تن کر کھڑی رہی، اسی لئے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ کہنے کا موقع ملا ہے کہ ایک صحافی کے صرف زخمی ہونے پر جوائنٹ انویسٹی گیشن سیل اور سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے کے احکا مات جاری کئے گئے مگرسانحہ ماڈل ٹائون میں درجن بھر شہادتوں کے بعد حکومت کے کانوںپر جوں تک نہ رینگی،بڑی ہچر مچر کے بعد ایک راناثنا اللہ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور ان کی جگہ رانا سبحان للہ کو بٹھا دیا گیا۔ اس وقت جب میں یہ سطور لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں تو یہی رانا سبحان اللہ قوم کی سمع خراشی فرما رہے ہیں،انکے منہ سے بات نہیں ،صرف جھاگ نکلتی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری وطن واپس کیا آئے ، حکومتی صفوںمیں بھگدڑ مچ گئی۔ملک کے وزیر داخلہ تو پہلے ہی عید کے چاند کی طرح ابر آلود مطلع کی زد میںآگئے تھے اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی حس مزاح بھی بھڑک اٹھی کہ چودھری نثار کی تلاش کے لئے روئت ہلال کمیٹی کااجلاس طلب کیا جائے۔ پتہ نہیں یہ اجلاس کب ہوا، کہاںہوا ،مگر اس کمیٹی نے جو چاند چڑھایا ہے اس کی شکل چودھری نثار سے نہیں، خواجہ سعد رفیق سے ملتی ہے، بے چارے کو خد اخدا کر کے ریلوے کی وزارت میںکھڈے لائن لگایا گیا تھا مگر اب انہیں کریز سے باہر نکل کر کھیلنا پڑ رہا ہے۔ویسے میںنے یونہی سعد رفیق کا مرتبہ بڑھادیا ،ہو سکتا ہے کہ پی آئی اے کیائر پورٹس کو ریل گاڑیوں کے سٹیشن سمجھ کر انہیں حرکت میں آنے کا اشارہ کیا گیا ہو۔ دونوں اداروں کی ایک جیسی بے ڈھنگی چال ہے۔
مجھے محمد سرور سے بے حد ہمدردی ہے، گورنر سندھ نے انہیں ایک سخت امتحان میں ڈال دیا۔ وہ ایک گھنٹہ تک لاہورائر پورٹ کی گرمی برداشت کرتے رہے، پھر انہیں جناح ہسپتال بھی جانا پڑا ، وہ بھی صرف ڈاکٹر قادری کے ساتھ نہیں ۔ چودھری پرویز الہی کے ساتھ بھی، جناح ہسپتال میں ڈاکٹر صاحب نے حکومت وقت کو جلی کٹی سنائیں ، انقلاب اور انتقام کی دھمکیاں دیں ، گورنر کوسب کچھ سر جھکائے سننا پڑا، ایک خفیف مسکراہٹ ان کے لبوں پر البتہ دیکھنے کو کبھی کبھار مل جاتی تھی، پتہ نہیں، وہ جاتی امرا ء کے سامنے کیسے اپنی صفائی پیش کر سکیں گے۔وہاں تو جنگلی بلے اور امرود چوروں کی معافی نہیںہوتی ، بہر حال میں گورنر سرور کا پرانا خیر خواہ ہوں، ان دنوں وہ مجھ سے اور میں ان سے دور دور رہنے کو ترجیح دیتاہوں لیکن وہ جو کہتے ہیںپرانا سو دن ،اس لئے ان کے لئے دل سے دعا ہی نکلتی ہے۔ میرے اصرار کے نتیجے میں ان کی برطانوی شہریت گئی ، اب ڈاکٹر قادری پر میرا زور چلا تو ان کی کینیڈا کی شہریت لے بیٹھوں گا تاکہ وہ یکسوئی سے انقلاب اور انتقام کے ایجنڈے پر کام کریں، انقلاب کبھی قسط وار مکمل نہیں ہوتا، اور انتقام تو جھٹکے کا نام ہے۔آر۔۔ یا۔۔ پار۔
وفاق اور پنجاب حکومت کی بوکھلاہٹ ایک تماشہ بن گئی ہے۔ امارات کی پرواز سے یوں چھیڑ چھاڑ کی گئی جیسے یہ خاقان عباسی کی ملکیتی پرواز ہو۔میںنے یہ مشورہ ضرور دیا تھا کہ قادری صاحب کے جہاز کا رخ احمد نگر کی طرف موڑ دیا جائے لیکن یہ تو حکومت کو سوچنا چایئے تھا کہ بارہ اکتوبر ننانوے کی شام احمد نگر کی طرف ایک پرواز کا رخ موڑنے کا نتیجہ کیا نکلا تھا۔ شکر یہ ہے کہ حکومت نے اسلام آباد سے جہاز کو لاہور بھجوا دیا، یہاں ان دنوں کوئی کوئی میرانیائر پورٹ مینجر نہیں تھا کہ رن وے پر رکاوٹیںکھڑی کر دیتا۔حکومت نے ایک دانش مندی اور بھی کی کہ جہاز کو جموں یا کابلائر پورٹ کا راستہ نہیں دکھایا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت پر بوکھلاہٹ تو طاری تھی مگر ہاتھوںکے طوطے نہیں اڑے تھے، کچھ عقل کام کر رہی تھی۔
امارات کی پرواز کے سلسلے میں وزیر دفاع کو سامنے آنا چاہئے تھا، وزیر داخلہ کو پردے سے نکلنا چاہئے تھا،وزیر شہری ہوا بازی، جنہوںنے کراچی ائرپورٹ کی سب اچھا رپورٹ وقت ضائع کئے بغیر وزیر اعظم کو پیش کر دی تھی، وہی صورت حال کو کنٹرول کرتے نظر آتے مگر میدان میںعابد شیر علی، پرویز رشید،سعد رفیق کبڈی کبڈی کر رہے تھے۔
ڈاکٹر قادری کو میں پچھلے سال ان کے گھر پر ملا تھا۔ علامہ پویا صاحب بھی تشریف فرما تھے ۔ ڈاکٹر صاحب منتظر تھے کہ میں سوالوں کا سلسلہ شروع کروںمگر میںنے انہیں کہا کہ میں ایک بھائی کی حیثیت سے ملنے آیا ہوں۔ آج اسی طرح پرویزالٰہی بھی ان کے پاس ائر پورٹ پہنچے۔
میں داد دیتا ہوں پاک فوج کو کہ اس نے آج کے ڈرامے کی آلودگی سے اپنا دامن صاف بچا لیا۔
حکومتی سراسیمگی دیکھی نہ جائے
Jun 24, 2014