پیسہ کہاں سے آیا

ایگزیکٹ کی مصیبت جعلی ڈگریوں کی فروخت سے شروع ہوئی بول تک پہنچی پھر صحافیوں کی غیر معمولی تنخواہوں اور مراعات تک۔ اس سوال کی بازگشت ہر طرف سنائی دینے لگی کہ کرپشن کی کہانیوں کی تہہ تک پہنچنے والے ان صحافیوں نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ پیسہ کہاں سے آیا؟ انصاف کی بات یہ ہے کہ تنخواہ لینے والے تنخواہ دینے والے سے یہ پوچھے کہ پیسہ کہاں سے آیا؟ یہ پاکستان ہے Utopia نہیں یہاں ایسا نہیں ہوتا ایگزیکٹ کی کہانی ابھی چل رہی ہے کہاں تک پہنچے گی شاید وہاں تک جہاں تک سوئس بینک میں رکھے گئے اکائونٹس اور سرے محل کی کہانی پہنچی لیکن اس سارے قصے میں جو بات من کو لگی وہ یہ چار لفظی فقرہ ہے پیسہ کہاں سے آیا مجھے لگتا ہے اس سوال کا صحیح جواب اور چند اور اضافی سوال اگر متعلقہ ادارے سنجیدگی سے ان لوگوں سے کریں جن سے کرنا چاہیے تو ہماری معیشت اور معاشرت دونوں سدھر جائیں گی کرپشن اور غربت دونوں کا علاج ہو جائے گا یہ جو اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں گنتی کے لوگ ٹیکس دے رہے ان کے ساتھ اور بہت سے نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں آ جائیں گے کئی لوگ رضا کارانہ طور پر مدد کریں گے جیسے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب گزشتہ دنوں انہوں نے فرمایا تھا اگر کوئی نریندر مودی کی پکڑوائے تو وہ اسے ایک ارب روپیہ دیں گے ظاہر ہے وہ صادق بھی ہیں اور امین بھی اپنا پیسہ ہی اسے دے سکتے ہیں اس میں انہوں نے زکوۃ تو دی ہو گی۔ ٹیکس نہیں بنتا ہو گا اس لئے نہیں دیا۔ ان سے مودبانہ انداز میں پوچھا جا سکتا ہے کہ پیسہ کہاں سے آیا اورپھر اس پیسے کو کس مد میں رکھا کہ ٹیکس نہیں بنتا۔ اسی طرح نادرا کا ادارہ بھی چھپا رستم ہے ترکی کے وزیر اعظم کی اہلیہ نے جوش جذبات میں اپنا نیکلس سیلاب زدگان کی مدد کے لئے دیا پی پی پی کی حکومت نے اس نیکلس کو نیلام کرنے کی بجائے نادرا کو 1.5 ملین روپوں میں فروخت کر دیا اور پھر وہ ہار نادرا کے سٹور سے چوری ہو گیا۔ اب نادرا کے اہلکاروں سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ ہار خریدنے کے لئے پیسہ کہاں سے آیا؟ اور اگر مقصود سیلاب زدگان کی مدد کی تھی تو پھر ہار خریدنے کی کیا ضرورت تھی ویسے ہی وزیر اعظم کے امدادی فنڈ میں جمع کروا دیتے۔
اگر ریونیو اکٹھا کرنے والے ادارے اخبار کی خبر پر ہی ایکشن لیتے ہیں تو اخباروں میں یہ خبریں بھی چھپی ہیں کہ 2015ء میں دبئی میں پاکستانیوں نے 375 ملین ڈالر کی پراپرٹی خریدی ہے اور 2014ء میں 140 غیر ملکی Communites نے دبئی میں پراپرٹی خریدی، پاکستانی دوسرے نمبر پر تھے U.A.E سے دوستانہ تعلقات ہیں ان لوگوں کی فہرست لی جا سکتی ہے اور پھر پوچھنا تو بنتا ہے اگر انہوں نے روپیہ پاکستان میں کمایا تو کیا ٹیکس دیا قیمتی سوال پیسہ دوبئی میں کیسے پہنچایا۔ کیا ویسے ہی جیسے آیان علی لے جا رہی تھی۔ چلئے آیان علی کو رہنے دیتے ہیں کیونکہ F.B پر اس کسٹم انسپکٹر کی تصویر گردش کر رہی ہے جس نے ایان علی سے رقم برآمد کی اور جسے قتل کر دیا گیا۔
سوال ان لوگوں سے بھی بنتا ہے جن کے گھروں سے اربوں روپے برآمد ہوتے ہیں۔ ساری دنیا کہہ رہی ہے کہ کراچی میں ٹینکر مافیا اربوں بنا رہا ہے وہ اربوں بنا کر کہاں چھپا دیئے ہیں، F.B.Rکو کیوں خبر نہیں ہوتی۔ بول سے سوال کرنا جائز لیکن باقی دنیا کو کیوں بخش دیا جائے، پیسے کی تقسیم میں نہ سہی حساب کتاب میں تو مساوات ہونی چاہیے اور یہاں بول کی انتظامیہ نے اگر مشینری اور آلات پر ڈیوٹی نہیں دی تو سزا صرف بول کی انتظامیہ نہیں اس وقت ڈیوٹی وصول کرنے والے اہلکار جو ڈیوٹی پر حاضر تھے ان کو بھی ملنی چاہیے۔مورل آف دی سٹوری یہ ہے کہ جو لوگ ایسے ہی اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں وجہ صرف کرپشن نہیں بہت سے اداروں کی نااہلی اور ناکامی بھی ہے سب سے بڑھ کر قانون ساز اداروں کی قانون ساز اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو صرف جمہوریت کے حسن کے راگ نہیں آلاپنا چاہئے ایسے قوانین بنانے چاہئے کہ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ٹیکس دینے پر مجبور ہو جائیں۔ اس سوال کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کہ پیسہ کہاں سے آیا؟ کیا پاکستان سے غیر قانونی رستے سے باہر جا کر زرمبادلہ کی صورت میں تو واپس نہیں آیا حکومتی اداروں میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ جو لوگ صحیح جواب نہ دیں انہیں صحیح جواب دینے میں مدد کریں تو کرپشن اور غربت دور کرنے میں مدد ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن