طلال چودھری (ن) لیگ کے سیاستدانوں کے بہت قریب ہے۔ اس نے کہا کہ ”صدر“ زرداری آج کل ایان علی کی جدائی میں مبتلا ہیں۔ اس لئے پریشان بھی ہیں کہ وہ کچھ ”غلط“ نہ کہہ دے۔ ”صدر“ زرداری کو اندیشہ یہ ہے کہ کہیں وہ سب کچھ سچ سچ نہ کہہ دے کیونکہ ان دنوں رحمان ملک بھی اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے لئے اپنے سگے بھائی خالد ملک کو بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ ایان علی رحمان ملک اور ”صدر“ زرداری کی بجائے خالد ملک کو زیادہ یاد کرتی ہے؟ یہ بات طلال چودھری نے کہہ تو دی مگر پھر کیا ہوا۔ نواز شریف کا دباﺅ تھا یا کیا تھا۔ ممکن ہے وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے اسے ڈانٹا بھی ہو۔ وہ پچھلے دنوں چودھری صاحب کی ایک پریس بریفنگ میں ہاتھ باندھے ان کے بالکل پیچھے نظر آ رہا تھا۔
طلال چودھری نے فوراً معافی مانگ لی۔ معافی تو اس نے ”صدر“ زرداری سے مانگی مگر لگتا تھا کہ کسی اپنے بڑے بھائی سے مانگ رہا ہے۔ طلال چودھری کو اس طرح کی بڑھکیں لگانے کا شوق ہے اور پھر اس کے لئے معافی مانگنے کا ذوق بھی ہے۔ شکر ہے کہ اس کے نام کے بعد چودھری ہے۔ طلال چودھری۔ چودھری کا نام پہلے استعمال کرنے والے اس نسبت کی اہمیت اور عزت کو سمجھتے ہیں۔ چودھری نثار علی خاں۔ سنا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے زمانے میں وہ ان کی گاڑی کے آگے دھمال ڈالا کرتا تھا۔ اب نواز شریف کے آگے ان کے اشاروں پر ناچتا ہے۔دونوں ایک ہی کام ہیں اور طلال چودھری کو اس کی بہت پریکٹس ہے۔
طلال چودھری قومی اسمبلی میں ایسی باتیں کرتے ہیں۔ کارروائی سے حذف کر دئیے جاتے ہیں۔ جب اس نے عمران خان کی خاتون اول ریحام خان کی بات کی تو محمود اچکزئی نے ایاز صادق سے مطالبہ کیا کہ ہم اپنے مخالفوں کی عورتوں کو بھی موضوع بحث نہیں بناتے لہٰذا یہ الفاظ حذف کر دئیے جائیں۔ طلال چودھری نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ہیلی کاپٹر ریحام خان رکشے کی طرح استعمال کرتی ہیں۔ اب یہ ایجاد بھی سامنے آئے گی کہ اڑتے ہوئے رکشے بنا لئے جائیں گے۔ پھر ان پر طلال چودھری بھی سوار ہوں گے اور ان کے ساتھ میں عمران خان بیٹھے ہوں گے۔ اس بیان کو پی ٹی آئی کے لوگوں نے سفید جھوٹ بلکہ کالا جھوٹ قرار دیا۔ طلال چودھری جھوٹ سچ کی تخلیق میں وقت ضائع نہیں کیا کرتا۔
اس نے پی ٹی آئی کی اہم خاتون شیریں مزاری کو آنٹی شیریں مزاری کہہ دیا۔ طلال چودھری کا پیپلز پارٹی کی شیری رحمان کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ انہیں شیریں رحمان کہتا ہے۔ کسی نے طلال چودھری کو لقمہ دیا کہ انہیں ”انٹی شیری رحمان“ کہہ دیں۔ اس نے زیر لب یہ بات کہہ دی ہو گی مگر بالائے لب نہیں کہا کہ پھر معافی مانگنا پڑے گی۔ شیری رحمان اور برادرم کائرہ صاحب ”صدر“ زرداری کے متنازعہ بیان کی وضاحتیں کر رہے ہیں اور بات زیادہ بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ میں نے کل لکھا تھا کہ شیری اور کائرہ دونوں ”صدر“ زرداری کے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔ شیری اور کائرہ وزیر اطلاعات رہے ہیں۔ مگر پہلے وزیر اطلاعات شیری صاحبہ رہی تھیں۔ کائرہ مطمئن ہیں کہ ”صدر“ زرداری کے پہلے وزیراعظم گیلانی سپریم کورٹ سے نااہل ہوئے تھے۔ اصل میں گیلانی صاحب کے لئے اہلیت کی بات یہ تھی کہ انہیں کرپشن کی بنیاد پر نااہل کیا جاتا۔ راجہ پرویز اشرف کو اتنا موقع ہی نہ ملا کہ وہ نااہل ہوتے۔
ہم برادرم شوکت بسرا کو مبارکباد دیتے ہیں کہ ”صدر“ زرداری نے انہیں منظور وٹو کا جنرل سیکرٹری پنجاب پیپلز پارٹی بنایا ہے۔ شوکت دوستدار آدمی اور مخلص جیالے ہیں۔ مگر وہ ”غیر جیالے“ منظور وٹو کے ساتھ کیسے گزارا کریں گے؟ میرے خیال میں پنجاب پیپلز پارٹی کے لئے ایک ہی اچھے دل و دماغ والے انسان اور عظیم سیاسی روایات کے سیاستدان فیصل آباد کے محترم رانا آفتاب صدر پنجاب پیپلز پارٹی کے طور پر آئے تھے۔ انہی دنوں میں ان سے ملاقات ہوئی مگر ان کے ساتھ دوستی شروع ہوئی جب وہ صدر پنجاب پیپلز پارٹی نہیں رہے تھے۔ کاش تب شوکت بسرا کو سیکرٹری جنرل بنایا جاتا۔ اب ان کے ساتھ دوستی کا دوسرا اصل دور شروع ہو گا۔ جب وہ سیکرٹری جنرل نہیں رہیں گے۔ بلاول پنجاب آ رہے ہیں اور یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا۔
آج نجانے کیوں مجھے عظیم سکھ لیڈر سردار جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ یاد آ رہا ہے۔ اس سے ملاقات گولڈن ٹمپل میں ہوئی تھی۔ اونچے لمبے بہادر بے تکلف اور جانثار انسان کو میں نے بتایا کہ میں لاہور سے آیا ہوں تو زمین پر بیٹھا ہوا لیڈر سکھ سردار کھڑا ہو گیا اور مجھے گلے سے لگا لیا۔
جب بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی فوجیں بوٹوں سمیت گولڈن ٹمپل میں گھس گئیں۔ سکھ یہاں جوتوں سمیت داخل نہیں ہوتے۔ ایک شخص دیوانہ وار لڑتا ہوا مارا گیا وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ تھا۔ پھر اندرا گاندھی کو دو سکھ گارڈز نے قتل کر دیا۔ یہ اندرا گاندھی تھی جس نے ڈھاکے میں فوجیں داخل کر کے بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں بکھیر دیں اور کہا کہ میں نے آج نظریہ پاکستان خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ تو مرشد و محبوب مجید نظامی نے نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی جو آج بھی قائم دائم ہے۔ ڈاکٹر رفیق احمد اور میاں فاروق الطاف کے علاوہ برادرم شاہد رشید اور اس کی ٹیم دن رات نظامی صاحب کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اس مرکز یقین و ایمان سے پاکستان دشمن بہت ڈرتے ہیں۔ تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے چیئرمین کرنل جمشید ترین بھی اپنے بڑھاپے کے باوجود سرگرم رہتے ہیں۔
آج بھی سکھ اپنے جرنیل یعنی جرنیل سنگھ کو یاد کرتے ہیں اور اسے اپنے طور پر شہید کہتے ہیں۔ دنیا والوں کے پاس اس اسلامی خطاب کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ جرنیل سنگھ جواں مرد تھا۔ دل پر گولی کھا کے گولڈن ٹمپل کی اپنی مقدس زمین کے ساتھ بغلگیر ہو گیا۔ مجھے معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں ہے۔ میری خواہش ہے کہ اسے گولڈن ٹمپل میں لا کے دفن کیا جائے۔ مگر کیا بھارتی حکومت اور انتہا پسند وزیراعظم مودی یہ معرکہ آرائی کرنے دے گا۔ سردار صاحبان نے جرنیل سنگھ کا دن منانے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔
آخر میں فرتاش کی انوکھی کتاب عشق بھی انقلاب کا ذکر کرنا ہے کہ یہی ذکر قابل ذکر ہے، میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ فرتاش کی شاعری اچھی ہے یا اس کی نثر اچھی ہے۔ ایک غزل کے یہ اشعار دیکھیں۔
سلام ا±ن سادہ دل لوگوں پہ جن کی سادگی یہ ہے
وطن کے گیت لکھتے ہیں کرائے کے مکانوں میں
یہاں انصاف بکتا ہی نہیں ہے، چھن بھی جاتا ہے
جرائم پیشہ شامل ہو گئے قانون دانوں میں
اب ایک جملہ سنیں اور فرتاش کی نثر کی داد دیں۔
”وہ دن جمہوریت کی پیدائش کا پہلا دن ہو گا۔ جب سیاستدان جھوٹ بولنا چھوڑ دینگے۔“