لاہور کا باپ کون تھا ؟

سعادت حسن منٹو " جوتا "میں لکھتے ہیں :
"ہجوم نے رخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تار کول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کئے اور ان کا ہار بنا کر بت کر گلے میں ڈالنے کیلئے آگے بڑھا۔ مگر پو لیس آگئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا۔ چنا نچہ مرہم پٹی کیلئے اسے گنگا رام ہسپتال بھیج دیا گیا۔" یہ تقسیمِ ہند کے بعد کا حقیقی واقعہ ہے، جب ہندو مسلم سکھ نفرت کی شدید ترین لپیٹ میں تھے، انتقام کی آگ، بے تحاشا خون خرابے اور عصمت دریوں کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی تھی اور لاہور کے بیچوں بیچ مال روڈ پر کھڑے سر گنگا رام کے ہندو مجسمے کو نفرتوں کی اس آگ سے مکتی کیسے ملتی۔ سعادت حسن منٹو کے حساس اور دو اندیش نظروں نے مذہبی شدت پسندی کو بھانپ لیا جس میں اندھے ہو کر مذہبی لوگ ، انسانیت اور انسانیت کی بلا امتیاز خدمت کرنیوالوں کو بھول رہے تھے اور بھولتے جائینگے۔ یہاں تک کے اپنے محسنوں کو بھی مذہب کی قید میں ڈال کر جوتوں کے ہار سے نوازیں گے۔
جس سول انجینئر نے آدھے سے زیادہ لاہور تعمیر کیا وہ یہی ہندو تھا اور جو جدید لاہور آپ کی نظروں کے سامنے کھڑا ہے، وہ اسی ہندئو سر گنگا رام کا تحفہ ہے۔ father of the modern lahoreکا خطاب بھی انہی کیلئے تھا۔یہ ہندئو ہندئو کی رٹ مذہب کی بنیاد پر لگا کر ہم نے اس عظیم انسان کو خواہ مخواہ اپنے سے دور کر دیا، جو ہمارا، پاکستان کا، لاہور کا ہیرو ہے، ہم نے پہلے اس کا مجسمہ ہٹایا اور پھر اسے بھی سرحد سے پرے دھکیلنے کی کو شش کی۔ مگر یا د رکھئے سر گنگا رام، ہمارے ہیرو تھے، ہیں اور رہیں گے۔ وہ پاکستان کا غرور ہیں۔لیکن مقامِ افسوس ہے کہ سعادت حسن منٹو کے اس پیرا گراف سے پہلے ہم نے سر گنگا رام کا نام گنگا رام ہسپتال کے علاوہ کہیں نہیں سنا تھا۔ خوشنود اختر لاشاری صاحب نے جب دستک پروگرام forgotten heroes series کیلئے سر گنگا رام کا نام تجویز کیا تو مجھے سوائے گنگا رام ہسپتال کے اور منٹو کے افسانے کی اس جھلکی کے کچھ یاد نہ آیا۔ سوچا ایک خیراتی ہسپتال چندہ اکٹھا کر کے ہی تو بنا یا ہو گا مگر پھر سوچا ایک ہسپتال بنانے پر مجسمہ تو نہیں بنا ہو گا، بر طانوی حکومت میں کام معیار اور ٹیلنٹ پر ہو تے تھے، یو نہی تو سر کا خطاب اور مجسمہ کا اعزاز نہیں ملا ہو گا۔تو سر گنگا رام کی کھوج ہوئی۔ ابھی گنگا رام کی ذات کی عظمت، پر وفیشنل ذہانت، مہارت اور ہنر کی پرتیں میرے سامنے کھل ہی رہی تھیں کہ کیا دیکھتی ہوں کہ بڈھے روای کے کنارے بنی انکی سمادھی کو، ہندوستان میں1992 میںبابری مسجد کو شہید کرنے کے مذمتی واقعے کے بعد مسمار کرنے کی کوشش کی، بے قابو، مشتعل، جذباتی اور بے عقل ہجوم نے سر گنگا رام، جو لاہور کا باپ ہے، اس کی آخری آرام گاہ کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی وہ وہیں، کریم پارک راوی روڈ کے پاس خستہ حالت میں موجود ہے۔سر گنگا رام ایک بہت بڑے سول انجینئر تھے جنہوں نے جی پی او لاہور، ہائی کورٹ، میوزیم، لاہور کالج، نیشنل کالج آف آرٹس، گورنمنٹ کالج لاہور جسکے وہ سٹوڈنٹ بھی تھے، اس کا کیمسٹری کا ڈیپارٹمنٹ، ایچی سن کالج، میوہسپتال کا البرٹ وکٹر ونگ، گلبرگ، اسی طرح امرتسر اور پٹیالہ کی کئی مشہور بلڈنگز ڈیزائن کیں۔ مگر آج اس محسنِ لاہور کی اپنی آخری آرام گاہ مذہب کی شدت کی بھینٹ چڑھ کر اسی طرح کسمپرسی کا شکار ہے، جس طرح دلی میں مزارِ غالب اور نظام الدین اولیا کا مزار بے یار و مددگار، خستہ حالت میں ہیں۔ 13 اپریل 1851 کو مانگٹ والا گائوں میں، ایک ایماندار سب انسپکٹر کے گھر جنم لینے والے اس خوبصورت دل اور ذہین دماغ کے بچے نے، اپنی زندگی کا حق ادا کیا اور 10جولائی 1927کو جہان ِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اوراپنے پیچھے محبت کی، بر داشت کی ، روداری کی اور انسانیت کی ایک الف لیلوی داستان چھوڑ گئے ۔ گنگا رام ہسپتال ، راوی روڈ کا معذور بچوں کا ادارہ، لیڈی میگلن سکول ، ان کے فلاحی کام ہیں۔
اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے زراعت کے میدان میں بھی حیران کن کام کئے۔ کئی ایکڑ بنجر زمین کو ہریالی عطا کی۔ پاور پلانٹ لگائے، اوکاڑہ میں نصب پاور پلانٹ آج بھی کئی میگا واٹ بجلی بنا رہا ہے۔
محنت اور خلوص کی کہانی اور جد ید سائنسی تعلیم کی مثال۔ یہ ہیں وہ تاریخ کے کردار، ہمارے ہیروز جنہیں نئی نسل کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہو کہ ہمارے محسن کون تھے۔ ان کو مذہب کی تنگ نظری نہیں بلکہ انسانیت کیلئے وسعت ِ نظر دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ سرگنگا رام کے ہند ئو نام کی وجہ سے ان کا مجسمہ توڑ بھی دو گے تو علاج کیلئے، زندگی کیلئے اسی کے بنائے ہسپتال میں جانا پڑیگا۔ صرف ہندئو لوگ ہی ان کی سمادھی پر بیساکھی کا میلہ نہ سجائیں، اور غریبوں کے والی کا گن نہ گائیں بلکہ حکومت کا فرض ہونا چاہئے کہ انکی آخری آرام گاہ کو قابل دید بنائیں، ان کا مجسمہ دوبارہ مال روڈ پر نصب کیا جائے ۔شائد پاکستان کو مذہب، زبان اور قومیت سے بالاتر ہو کر دیکھنے کی ضرورت آج سے پہلے کبھی نہیں تھی… قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر جس میں اقلیتوں کے حقو ق کی بات کی گئی ہے ، اسی کے صدقے ہی سہی… ہندئو محسن کو مسلمان محسن کی بات کے صدقے ہی سہی، یااپنی نئی نسل کو انسان بنانے کیلئے ہی سہی، ایسے ہیروز کو ان کا مقام دے دینا چاہیئے۔

ای پیپر دی نیشن