آبی مسائل کے حل کی تلاش : مواقع اور امکانات (25)

کالاباغ ڈیم کے حامی خصوصاً جن کا تعلق پنجاب سے ہے ، وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ منصوبہ پانی کے انتظام و انصرام ، سیلاب سے بچائو ، پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار سمیت ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔لیکن اس متنازعہ منصوبے سے قطع نظر پاکستان کے تمام صوبے عمومی طور پر پانی کے اُن خوفناک مسائل سے لا تعلق رہے ہیں ، جووہ اپنے طرز عمل کی بدولت آئندہ نسلوں کیلئے پیدا کررہے ہیں۔
اِس ضمن میں پہلا بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہے ۔ دریائے سندھ میں پانی کا یکساں بہائو زیادہ تر گلیشیئر پگھلنے کے نتیجے میں حاصل ہونیوالے پانی کی یقینی مقدار کی وجہ سے ہے ، اگرماحولیاتی تبدیلی کے بدترین پیش منظر کا تصور کیا جائے تو تمام گلیشیئرز صرف ایک صدی میں ہی ختم ہوجائینگے۔ اس دوران انکے پگھلنے کی شرح بہت بلند ہوگی ۔ جبکہ گلیشیئرز ختم ہونے کے بعد پانی کی فراہمی میں 30 سے40 فیصد کمی واقع ہوجائیگی۔ پانی کے مسائل مزید گھمبیر صورت اختیار کرجائینگے کیونکہ باقی ماندہ پانی کی دستیابی شدید اُتار چڑھائو کا شکار رہے گی۔ ہمارے یہاں مون سون کا موسم بدل رہا ہے جبکہ چترال اور سوات سمیت پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں رونما ہونیوالے کلائوڈ برسٹ (Cloud Burst) کے واقعات ہمیں اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ ہم نہ صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات عمل میں لائیں بلکہ اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی بھی کوئی تدبیر اختیار کریں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس بارے میں ہمیں مستعدی کے ساتھ عمل کرتے ہوئے ایک مناسب اور مؤثر لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا۔ہماری پالیسی سازی کیلئے دوسری بڑی آزمائش آبادی میں اضافہ کی شرح ہے۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے و قت پانی کی فی کس اوسط دستیابی 5ہزار مکعب میٹر سالانہ سے زائد تھی ، جس میں 80فی صد کمی واقع ہوچکی ہے اور اب یہ ایک ہزار مکعب میٹر سالانہ کی سطح تک گر چکی ہے ۔
پانی کی آلودگی کی ایک اور وجہ زراعت کے باعث پیدا ہونیوالی آلودگی ہے۔ آلودہ پانی کا بلا روک ٹوک اخراج منچھر جھیل سمیت سندھ کے قدرتی آبی ذخائر کو بہت زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے ۔ بلوچستان کے زراعت کی وجہ سے آلودہ پانی کو نکاسی کیلئے سندھ میںراستہ نہیں دیا جارہا ۔ اس وجہ سے دونوں صوبوں میں تنائو ہے اور دونوں صوبوں کا یہ باہمتی تنائو رائٹ بنک آئوٹ فال ڈرین (آر بی او ڈی) پراجیکٹ کے فعال ہونے میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں پانی کے حوالے سے تیسرا بڑا مسئلہ زیر زمین پانی کے انتظام و انصرام کے بارے میں ہے۔ ہمارے شہروں کے پالیسی سازوں نے اس حقیقت کے بارے میں چشم پوشی اختیار کی ہوئی ہے کہ قدرت نے ہمارے لئے زیر زمین پانی کے جو ذخائر صدیوں سے بنائے ہیں ، وہ اب بڑی تیزی کیساتھ ختم ہورہے ہیں ۔ مستقبل میں پانی کی دستیابی کے حوالے سے یہ نیک شگون نہیں ہے۔ اکثر شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک نیچے جاچکی ہے ۔ اس وقت لاہورشہر میں واسا 750فٹ کی گہرائی سے پانی نکال رہا ہے جبکہ زیر زمین پانی صرف ایک ہزار فٹ کی گہرائی تک موجود ہے۔ حال ہی میں کی جانیوالی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح جو خطرناک حد تک گر چکی ہے ، اُسے بحال کرنے کیلئے دو صدیاں درکار ہوں گی۔
ہمارے ہاں چوتھا مسئلہ پاکستان کی قیمت سے متعلق ہے اور غالباً پاکستان کی آبی اقتصادیات کو درپیش مسائل کی جڑ ہے ۔ ہم پانی کو اس طرح استعمال کرتے ہیں گویا یہ ہوا کی مانند بلا قیمت اور کثرت کیساتھ دستیاب ہے ۔ زمین سے کشید کئے گئے پانی کی کوئی قیمت نہیں جبکہ دریائی پانی بھی تقریباً مفت دستیاب ہے۔ جس دورمیں سکھر بیراج تعمیر کیا گیا ، سندھ ، بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ تھا ۔ سکھر بیراج ہندوستان کے پایۂ تخت دہلی سے حاصل کئے گئے قرض کی مدد سے تعمیر کیا گیا۔ اس کی تعمیر پر آنیوالی لاگت اور بعد ازاں اسے چلانے کیلئے درکار رقم ، پانی استعمال کرنیو الے لوگوں سے وصول کی جانی تھی۔ 1936ء میں سندھ ایک علیحدہ صوبہ بن گیا اور سندھ انتظامیہ یہ رقم وصول کرنے میں ناکام رہی۔ دہلی میں قائم برطانوی حکومت کے پاس اِس بات کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ سکھر بیراج کی تعمیر کیلئے حاصل کئے گئے قرض کی وصولی کیلئے مزید مہلت دے ۔ قیام پاکستان کے بعد نہ صرف سندھ بلکہ دیگر تمام صوبوں سے بھی منصوبوں کی تعمیر پر اٹھنے والی لاگت کی وصولی کو بتدریج ترک کردیا گیا ۔ اب صرف ان منصوبوں کا انتظام چلانے کیلئے درکار رقم وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لیکن اس رقم کا بہت تھوڑا حصہ ہی حاصل ہوپاتا ہے ۔ مذکورہ وصولی کی شرح صرف 20 سے 30 فیصد ہے۔ اِس صورت حال کا نتیجہ ہے کہ اب پانی کے وہ منصوبے ، جن میں بجلی کی پیداوار کا عنصر شامل نہیں اُن کی تعمیر کیلئے درکار رقم کا انتظام تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔
ماضی میں خان پور اور حب ڈیم کے دو منصوبے صرف پانی ذخیرہ کرنے کیلئے تعمیر کئے گئے ۔ خانپور ڈیم کا پانی راولپنڈی اور اسلام آباد کی شہری ضروریات جبکہ خیبر پختونخوا کی زرعی ضروریات کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ اسی طرح حب ڈیم سے کراچی میں آب نوشی اور بلو چستان میں زرعی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ اقتصادی رابطہ کونسل (ای سی سی) کے فیصلے کے مطابق دونوں منصوبوں کی تعمیر پر آنیوالی لاگت اور انکی تکمیل کے بعد انہیں چلانے کیلئے (او اینڈ ایم) اخراجات متعلقہ صوبوں سے وصول کئے جانے تھے ۔ ای سی سی کے فیصلے کے باوجود تعمیراتی اخراجات کبھی وصول نہیں کئے گئے جبکہ متعلقہ صوبے اِ ن منصوبوں کو چلانے کیلئے درکار رقم کی ادائیگی پر بھی لیت و لعل کرتے ہیں ۔ اس بات کا تذکرہ قارئین کیلئے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ او اینڈ ایم چارجز میں پانی کی قیمت شامل نہیں ہوتی بلکہ چارجز صرف ان منصوبوں کو جاری رکھنے کیلئے درکار رقم پر مشتمل ہوتے ہیں۔پانی کی قیمت کا تعین کئے بغیر پانی کے زیرِزمین رسائوکو روکنے کیلئے نہروں کی پختگی کے منصوبے کیلئے رقم کا انتظام بھی انتہائی دشوار ہے۔ 1976ء سے 2015ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً 145ملین ایکڑ فٹ دریائی پانی دستیاب ہوتا ہے۔ اس میںسے 101 ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ نہروں کو منتقل کئے گئے پانی میں 40ملین ایکڑ فٹ کھیتوں تک پہنچنے کے دوران کم ہوجاتا ہے یعنی 4ملین ایکڑ فٹ پانی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ 36ملین ایکڑ فٹ پانی زمین میں جذب ہوجاتا ہے ۔ نتیجتاً ہمارے کھیتوں تک صرف 61ملین ایکڑ فٹ پانی پہنچتا ہے ۔ زمین میں جذب ہونیوالے 36ملین ایکڑ فٹ پانی کا 20ملین ایکڑ فٹ پانی کھارے علاقوں میں جذب ہوتا ہے ۔ یہ علاقے زیادہ تر ملک کے جنوبی حصے میں واقع ہیں۔ باقی 16 ملین ایکڑ فٹ پانی ایسی اراضی میں جذب ہوتا ہے جہاں زیر زمین پانی میٹھا ہے۔ کھارے پانی کے علاقوں میں جذب ہونیوالے 20ملین ایکڑ فٹ پانی کے ضیاع کو روکنے کیلئے نہروں کو پختہ کرنا ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے۔ لیکن نہروں کو پختہ کرنے کے منصوبوں کیلئے تجاری طور پر رقم کا بندوبست اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس سرمایہ کاری کی واپسی کا کوئی انتظام نہ ہو۔ زیرزمین کھارے پانی کے علاقوں میں نہروں کی پختگی کے بے شمار فوائد ہیں ۔ اس طرح بچائے گئے پانی کو بروئے کار لا کر 20ملین ایکڑ قابل کاشت اراضی کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ ایک گزشتہ قسط میں آل مریکن کینال کا تذکرہ کیا گیا تھا۔ دریائے کولاراڈو کے زیریں طاس میں تعمیر کی گئی یہ نہر کئی سالوں تک ناپختہ رہی ۔ لیکن 2003ء میں وفاقی اور ریاستی فریقین اِس نہر کو پختہ کرنے کیلئے سرمایہ کاری اور نتیجتاً بچائے گئے پانی کو باہم تقسیم کرنے پر رضا مند ہوگئے ۔ ہم یہ کام اس لئے نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے یہاں زرعی مقاصد کیلئے استعمال میں لانے والے پانی کی کوئی قیمت ہی نہیں۔اگر ہمارے وفاق کی چاروں اکائیاں آنیوالی نسلوں کیلئے اپنی اجتماعی ذمہ داری کا احساس کریں تو ہمیں اپنی مستقبل کی آبی ضروریات کیلئے حوالے سے لائحہ عمل وضع کرنے کیلئے اجتماعی سوچ اپنانے کی فوری ضرورت ہے ۔ یہ بات ہمارے پیش نظر رہے کہ آبی ذخائر کی تعمیر اس لائحہ عمل کا محض ایک جزو ہے۔ زیر نظر مضمون کی اگلی یعنی آخری قسط میں اس لائحہ عمل کی تیاری کیلئے خلوص ِنیت کے ساتھ کوشش کی جائیگی۔

ای پیپر دی نیشن