شاہین بٹ کی افطاری دوستداری بے قراری اور سرشاری

بہت اچھے دل والے دوستدار اور نیک نیت آدمی شاہین بٹ کے سٹائلش گھر میں افطاری کی تیاری میں ہم سب لوگ عالمی شہرت کے قوال امجد صابری کے قتل پر رنج و غم کا اظہار کر رہے تھے۔ وہ خوبصورت وجیہہ شخص بظاہر قوال تھا مگر وہ بڑے کمال کا آدمی تھا۔ اسے سننا ایک بہت خوشگوار تجربے کی طرح ہے۔ وہ نہیں ہے مگر اس کی آواز اپنے لہجے میں کئی راز لئے ہم سے سوال کرتی رہے گی کہ میرا قصور کیا تھا۔ بہت بڑے انسان سماجی شخصیت حکمت کو مقبولیت کی بلندیوں پر لے جانے والے حکیم محمد سعید کا کیا قصور تھا۔ بڑے لوگوں کو منظر سے کیوں ہٹایا جا رہا ہے۔
یہ کھیل کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے کراچی میں لیڈر سیاستدان برادرم فاروق ستار کو کیوں یہ کہنا پڑا کہ امجد صابری نے پاک سر زمین کی دھمکیوں سے آگاہ کیا تھا۔ اب اس کی تصدیق صابری سے کیسے کی جائے۔ یہ موقعہ سیاست کرنے کا نہیں ہے۔ یہ سیاستدان کیا کرتے ہیں۔
کراچی میں موت کا کھیل جاری ہے۔ کیسے کیسے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ رینجرز گومگو کا شکار کیوں ہے۔ بھرپور طریقے سے آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا۔ مصلحتوں سے کام کیوں لیا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کہتی ہے کہ جس ادارے نے شہر کی ذمہ داری لی ہے۔ وہ کہاں ہے؟ ایم کیو ایم کا اعتراض رینجرز پر ہے؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے۔ جبکہ حکیم سعید کی شہادت کے وقت تو رینجرز کراچی میں نہ تھی نہ پاکستان سرزمین تھی۔
برادرم شاہین بٹ کی افطاری میں دیر تک امجد صابری کے حوالے سے پریشانی کا اظہار بھی ہوا کہ کراچی میں اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔ میں اس بار بھی ڈاکٹر مجاہد کامران کی ہمراہی میں افطار کیلئے پہنچا۔
وہاں افطار کا انتظار ہو رہا تھا۔ انتظار ایسی ہی کیفیت ہے۔ مگر ہم نے انتظار کو صرف بے قرار کرنے کا ایک ہتھیار بنا دیا ہے۔ شاہین بٹ کے گھر پر شعیب بن عزیز، امجد اسلام امجد، حفیظ اللہ نیازی اور پرویز بشیر شریک تھے۔ چار پانچ صحافیوں کے علاوہ باقی سب لوگ افطاری کرنے آئے تھے۔
یہ افطار کی برکات ہیں کہ مہمان خصوصی شہباز شریف بھی افطار سے پہلے پہنچ گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا روزہ ہے۔ بٹ صاحب کی وجہ سے شہباز شریف کے ساتھ بے تکلفانہ ملاقات ہوئی۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے تو خبروں اور کئی سرکاری موقعوں پر ملاقات ٹی وی چینلز کے ذریعے ہوتی رہتی ہے۔ یہاں سب نے نماز ایک ساتھ ادا کی۔ کھانے کے بعد بھی دیر تک گپ شپ چلتی رہی۔
شاہین بٹ کے ساتھ شہباز شریف کی گہری یاری ہے۔ آج ان کے پاس وقت بھی تھا۔ وہ بہت بے تکلفی کے موڈ میں تھے۔ وہاں ایک ساتھی کے اجازت مانگنے پر انہیں خیال آیا کہ اب جانا چاہیے۔ وہ دوست یہ خیال نہ دلاتا تو وہ بیٹھے رہتے اور سحری کر کے جاتے۔
شاعروں کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ شاعری کے حوالے سے گفتگو نہ ہوئی۔ شہباز شریف نے پوچھا اقبال اور غالب میں کون بڑا شاعر ہے۔ غالباً حفیظ اللہ خان یا امجد اسلام امجد نے کہا کہ دونوں بڑے شاعر ہیں۔ یہ موازنہ بہت مشکل ہے۔ اتنے میں آواز آئی اقبال بڑا شاعر ہے۔ اس پر سب نے ہاں کہا۔ غالب اور میر کی بات بھی شہباز شریف نے کی۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں شاعروں سے دلچسپی ہے اور وہ بڑے شاعروں سے باخبر ہیں۔
امجد اسلام امجد نے احمد ندیم قاسمی کے کئی مزیدار اشعار سنائے تو میاں صاحب نے پوچھ لیا کہ احمد ندیم قاسمی اور عطاءالحق قاسمی میں کیا فرق ہے۔ اس پر بے ساختہ شعیب بن عزیز نے کہا کہ انیس بیس کا فرق ہے۔ اس پر محفل میں ایک قہقہہ بلند ہوا۔ ندیم صاحب کی زندگی میں بڑے قاسمی صاحب اور چھوٹے قاسمی صاحب کی اصطلاح بھی عام کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ احمد ندیم قاسمی نے زندگی میں کوئی سرکاری عہدہ قبول نہ کیا تھا۔ ندیم صاحب کا ایک شعر عرض ہے۔
جانتے بُوجھتے جس شخص نے دھوکہ کھایا
اس کے اندر کوئی فنکار چھپا بیٹھا ہے
اس عظیم فنکار نے بڑی عمر پائی اور عمر بھر دھوکے کھانے میں گزار دی مگر شاعروں کی عزت بنائے رکھی۔ احمد ندیم قاسمی کا جنازہ بہت بڑا تھا۔ امام احمد بن حنبل نے کہا تھا کہ جنازہ ثابت کرے گا کہ سچا کون ہے۔ مگر اب تو جھوٹوں نے اپنی بڑائی بنائے رکھنے کیلئے کچھ بھی کرنے کی سرکاری تیاری کر رکھی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کیلئے شہر لاہور میں کوئی سڑک منسوب ہونا چاہیے۔ اس سے شہباز شریف نے اتفاق کیا۔ عطاءالحق قاسمی نے کہا تھا۔ لاہور کے بیچوں بیچ نہر کنارے سڑک کو ندیم صاحب کے نام سے منسوب کیا جائے۔ یہ بھی تجویز تھی کہ کوئی انڈر پاس وغیرہ ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ اس میں منیر نیازی کا ذکر بھی آیا۔ وہ بلاشبہ بڑے شاعر ہیں۔ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کے نام پر بھی کوئی سڑک ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے بیگم منیر نیازی باجی ناہید نیازی کے پاس کچھ تجاویز بھی ہیں۔
اب لاہور سڑکوں کے اعتبار سے بہت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔ دلی سے ایک پروفیسر یہاں آئی تو اس نے کہا کہ میں تو یورپ آ گئی ہوں۔ اس کے ساتھ میری تجویز یہ ہے کہ لاہور میں دو ایک اچھے اور بڑے ہسپتال بھی بنوائے جائیں تاکہ مریضوں ان کے لواحقین کو آسانی اور آسودگی ہو۔
نصاب تعلیم کی بات بھی ہوئی۔ تو یہ ذکر بھی ہوا کہ اس حوالے سے ڈاکٹر مجاہد کامران بڑا کام کر رہے ہیں۔ سب نے ایک نصاب ایک کتاب پر زور دیا۔ سکول کوئی بھی ہو وہاں ایک جیسی تعلیم ہو۔ پاکستان کے بارے میں معلومات کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ تاکہ طالب علموں کو اپنی تاریخی اہمیت اور اپنے ہیروز کا علم ہو۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کا پتہ ہو۔ پاکستان کی کوئی پہچان بنے اور لوگوں کو پاکستانی ہونے پر فخر ہو۔
ہم شاہین بٹ صاحب کے شکرگزار ہیں کہ وہ اچھے اور پڑھے لکھے آدمیوں کو جمع کرتے ہیں۔ وہ اور ان کی باتیں اقتدار کے ایوانوں تک بھی پہنچیں۔ یہاں سب نے کھل کر بات کی۔

ای پیپر دی نیشن