درحقیقت یہ دہشتگردبھارتی ایماءپر ہماری ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کررہے ہیں

کوئٹہ میں جمعة الوداع کے روز سفاک دہشتگردوں کی گھناﺅنی واردات میں 13 معصوم انسانوں کی شہادتیں
سفاک دہشت گردوں نے عیدالفطر سے دو روز قبل 27ویں رمضان المبارک کو جمعة الوداع کے روز کوئٹہ میں آئی جی پولیس آفس کو ٹارگٹ کرکے بارودی مواد سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے باعث چار پولیس اہلکاروں سمیت 13 افراد جاں بحق اور 21 افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کردیا جہاں آٹھ زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے جس کے باعث مزید ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ دھماکے کے فوری بعد امدادی ٹیمیں اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے جنہوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اسکی آواز دور دور تک سنی گئی۔ دھماکے سے محکمہ تعلیم کے آفس کی دیوار بھی گر گئی اور دو گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ ترجمان بلوچستان حکومت انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ میں سکیورٹی انتہائی سخت تھی اور جب اہلکاروں نے گاڑی کو روکا تو انہوں نے بارودی مواد سے بھری اس گاڑی کو دھماکے سے اڑا دیا۔ انکے بقول دھماکے کا خدشہ موجود تھا جس کے باعث سکیورٹی ہائی الرٹ کی گئی تھی تاہم فوری طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دھماکے کا ہدف کیا تھا۔ ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ نے جائے حادثہ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے جاں پر کھیل کر کوئٹہ کو بڑی تباہی سے بچالیا ہے۔ انکے بقول جائے وقوعہ پر دو گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں تاہم ابھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے دھماکہ خیز مواد کس گاڑی میں تھا۔
دہشت گردوں نے اس گھناﺅنی واردات کیلئے رمضان المبارک کے ماہ مقدس کے جس روز کا انتخاب کیا اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی ایمان اور دین و مذہب نہیں ہوتا‘ یہ انسانیت کے دشمن ہیں جن کا ایجنڈا محض ملک میں افراتفری کی فضا پیدا کرکے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے سے متعلق ہمارے سفاک دشمن بھارت کے مقاصد کی تکمیل ہے۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں گوادر پورٹ سے منسلک پاکستان چین اقصادی راہداری منصوبے کے آغاز سے زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی ایماءپر گوادر پورٹ اور سی پیک کو سبوتاژ کرنا ہی دہشت گردوں کا اصل ہدف ہے جبکہ کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے مقصد کے تحت بھی مخصوص فرقے کے لوگوں کو ٹارگٹ کرکے خودکش حملے اور دہشت گردی کی وارداتیں کی جاتی رہی ہیں جبکہ ان وارداتوں کا مقصد بھی پاکستان کے اندرونی طور پر کمزور ہونے کا تاثر دینے کا ہے جس کیلئے بھارتی ایجنسی ”را“ یہاں اپنا نیٹ ورک پھیلا کر سرگرم عمل ہے۔
اس سے بڑی سفاکی اور انسانیت دشمنی اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کی یہ واردات عیدالفطر سے دو روز قبل کی گئی چنانچہ دہشت گردی سے متاثر ہونیوالے جن افراد کے گھروں میں عید کی تیاریاں جاری تھیں وہاں اب صف ماتم بچھ گئی ہے اور یہی دہشت گردوں کا اصل ایجنڈا ہے کہ لوگوں میں عدم تحفظ اور خوف و ہراس کی فضا برقرار رکھی جائے تاکہ انہیں اپنے اہداف تک پہنچنے اور کھل کھیلنے میں آسانی ہوسکے۔ اگرچہ پولیس حکام ابھی تک اس حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے کہ اس گھناﺅنی واردات میں دہشت گردوں کا اصل ہدف کیا تھا تاہم وہ شہداءچوک کوئٹہ میں جناح چیک پوسٹ تک بارودی مواد سے بھری گاڑی لائے اور آئی جی آفس کے قریب انہوں نے اس گاڑی کو دھماکے سے اڑایا تو بادی النظر میں آئی جی آفس ہی ان کا ہدف تھا کیونکہ سکیورٹی اداروں اور اہلکاروں کو ہدف بنا کر دہشت گرد خوف و ہراس پیدا کرنے میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں جبکہ اس سے امن و امان کی صورتحال پر حکومتی ریاستی اتھارٹی کی گرفت کمزور ہونے کا تاثر بھی اجاگر ہوتا ہے چنانچہ دہشت گرد درحقیقت ریاست پاکستان پر حملہ آور ہورہے ہیں جو ہماری سالمیت کے درپے سفاک دشمن بھارت کے سوا اور کسی کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا۔
سانحہ اے پی ایس پشاور سے کوئٹہ میں گزشتہ روز کی دہشت گردی تک ملک میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر سکیورٹی کے اداروں اور سکیورٹی افسران و اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ گلشن پارک لاہور اور سیہون شریف کی درگاہ سخی شہباز قلندر میں دہشت گردی کا مقصد بھی زیادہ سے زیادہ خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کا تھا جس میں سفاک دہشت گرد کامیاب رہے۔ رواں سال کے آغاز میں چیئرنگ کراس لاہور میں جس طرح اعلیٰ پولیس افسران کو ٹارگٹ کرکے خودکش حملہ کیا گیا‘ اس سے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کمزور ہونے کا تاثر دینا ہی مقصود تھا جبکہ اس واردات کے سہولت کار کی گرفتاری سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ بھارت ہمیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کررہا ہے جہاں اسکی ایجنسی ”را“ دہشت گردوں کو تربیت دے کر بھاری اسلحہ اور گولہ بارود سمیت افغان سرحد عبور کراکے پاکستان بھجوا دیتی ہے اور پھر یہ دہشت گرد اپنے متعینہ اہداف تک پہنچ کر بے گناہ افراد کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ ہماری سالمیت کیخلاف بھارت کے ان سفاک عزائم کے بارے میں ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کے فراہم کردہ ٹھوس ثبوتوں اور شواہد پر مبنی ایک مربوط اور ٹھوس ڈوژیئر دفتر خارجہ نے تیار کرکے گزشتہ سال یواین سیکرٹری جنرل اور امریکی دفتر خارجہ کو پیش کردیا تھا جس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کے حوالے سے بلوچستان میں پھیلے ”را“ کے نیٹ ورک کی نشاندہی کی گئی جبکہ کلبھوشن کی نشاندہی پر افغانستان کے متعدد جاسوس بھی حراست میں لئے گئے ہیں جس سے اس امر کی بھی تصدیق ہوئی کہ بھارت اور افغانستان پاکستان میں دہشت گردی کے مشترکہ ایجنڈے پر کام کررہے ہیں جس کا بنیادی مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہی ہے۔ اسی تناظر میں ترجمان بلوچستان انوارالحق کاکڑ نے کوئٹہ دہشت گردی کے حوالے سے دوٹوک موقف اختیار کیا ہے کہ بھارت دہشت گردی کو پاکستان کیخلاف بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔
دہشت گردی کی اس نئی واردات کے بعد بے شک وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاءپسندی کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی دم لیں گے جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان ثناءاللہ زہری نے بھی دہشت گردوں کو ہر صورت انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یقیناً اس مقصد کیلئے ہی ملک میں سکیورٹی فورسز کے اب تک چار مربوط اپریشن کئے جاچکے ہیں اور ”ردالفساد“ کے نام سے پانچواں اپریشن ملک بھر میں جاری ہے جبکہ پہلے اپریشن شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت ملک کے مخصوص علاقوں میں کئے گئے تھے۔ اگر سکیورٹی فورسز کی فعالیت اور انکے سخت گیر اپریشنز کے باوجود دہشت گردوں کے نیٹ ورک مکمل طور پرختم نہیں ہو سکے اور وہ ملک میں کسی بھی جگہ اپنے اہداف تک آسانی سے پہنچ رہے ہیں اور دہشت گردی کی وارداتوں میں کامیاب بھی ہورہے ہیں تو یقیناً ہمارے سکیورٹی انتظامات میں ایسی خامیاں موجود ہیں جن کا دہشت گردوں‘ انکے سہولت کاروں اور سرپرستوں کو بھی علم ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنے اہداف تک بلاروک ٹوک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں متعدد مواقع پر دعویٰ کرچکے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے سول اور عسکری قیادتوں کے اتفاق رائے سے تشکیل دیئے گئے نیشنل ایکشن پلان کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جارہا ہے تاہم دہشت گرد ہماری حکومتی ریاستی اتھارٹی کے اسی چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور سکیورٹی اداروں تک کو ہدف بنا کر اس میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اس سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وزیر داخلہ کے دعوے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر اب تک انکی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے آج سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ دہشت گرد عیدالفطر اور ٹرو کے دنوں میں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے زیادہ اہداف متعین کرسکتے ہیں۔ ہمارے عسکری اداروں کو عید کے موقع پر زیادہ فعال ہونا ہوگا۔
دہشت گرد چونکہ ہماری خودمختاری اور سلامتی کو چیلنج کررہے ہیں اس لئے ہماری ریاستی اتھارٹی کو بہرصورت اس چیلنج سے عہدہ برا¿ ہونا ہوگا اور اس ارض وطن کو دہشت گردی کے ناسور سے مکمل پاک کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر دہشت گرد اسی طرح کھل کھیلتے رہیں گے تو یہاں ریاستی اتھارٹی کا تصور ہی مفقود ہو جائیگا۔ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات اور چیلنجز سے نمٹنا بہرصورت ہماری سکیورٹی فورسز کی بنیادی ذمہ داری ہے جس میں کسی قسم کی کمزوری یا غفلت کے ہم ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارے دشمن بھارت کو ایسی کمزوری سے ہی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن