اسلام آباد (آئی این پی) سابق ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) شعیب سڈل نے کہا ہے کہ حکومت وزیراعظم ہاﺅس کے ٹیلی فون ٹیپنگ کے الزام کی تحقیقات کے لئے انٹیلی جنس بیورو سمیت ہر حکومتی ادارے سے مدد لے سکتی ہے‘ کسی کی طرف سے بھی ٹیلی فون ٹیپ کرنا غیر قانونی ہے‘ آئی بی کے موجودہ سربراہ آفتاب سلطان بہت اچھے آفیسر ہیں‘ حسین نواز کی تصویر لیک کے معاملے میں ملوث شخص کا نام منظر عام پر آنا چاہئے‘ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم ہاﺅس کی انٹیلی جنس بیورو مسلسل چیکنگ کرتا تھا تاکہ کوئی بھی وزیراعظم ہاﺅس میں ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ نہ کرسکے۔ نجی ٹی وی کو دیئے انٹرویو میں شعیب سڈل نے کہا پانامہ کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی طرف سے آئی بی پر کچھ الزامات لگائے گئے ہیں میں اس کی حقیقت نہیں جانتا کہ ان الزامات میں کتنی صداقت ہے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آفتاب سلطان کو حکومت نے مدت ملازمت میں تین مرتبہ توسیع دی ہے انہوں نے کہا کہ آفتاب سلطان نے میرے ساتھ کام نہیں کیا وہ میرے سے چار سال جونیئر تھے تاہم پولیس میں وہ اچھی شہرت کے حامل افسران میں شمار کئے جاتے تھے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وزیراعظم ہاﺅس کے ٹیلی فون ٹیپ کئے جارہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی ٹیلیفون ٹیپ کرنے کا قانونی اختیار نہیں ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آئی بی کے فنڈز کا آڈٹ اس طرح سے نہیں ہوتا جس طرح دیگر حکومتی اداروں کا ہوتا ہے کیونکہ بعض نیشنل سکیورٹیز کے معاملے ہوتے ہیں جنہیں منظر عام پر لایا جانا ملکی مفاد میں نہیں ہوتا تاہم کسی حد تک آڈٹ کیبنٹ سیکرٹری کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا۔ عدالتی نظام میں خامیوں کی وجہ سے دہشت گردوں کو فوری سزائیں دینے کے لئے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔
شعیب سڈل