بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو معدنی اعتبار سے سب سے اہم بھی یہاں سوئی گیس ،کوئلہ، سونا ، تانبا، لوہا اور بہت سی دوسری اہم معد نیات موجود ہیں۔ سمندری ساحل ہے گوادر کی اہم بندگاہ جوچین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کا اہم جز ہے۔ اسکے علاوہ پاک بحریہ کی متعدد تنصیبات ہیں اور مزید تین یا چار بندرگاہیں تعمیر کرنے کی گنجائش ہے۔ بلوچستان کا ساحل اسٹراٹیجک اعتبار سے بھی اہم ہے کیونکہ یہاں پانی گہرا ہے اور جہاز بجائے دور لنگر انداز ہونے کے ساحل کے قریب آسکتے ہیں۔ آبدوز بھی زیر سطح رہتے ہوئے ساحل کے قریب پہنچ سکتی ہیں ۔آبنائے ہر مز کی قربت کے باعث دنیا بھر میں خلیجی ممالک سے تیل کی سپلائی فراہم ہونے والی 35فیصد تیل کی ترسیل اس کے مقابل گزرتی ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں شورش کی کوششیں اسی وقت سے شروع ہوگئی تھیں جب سے وہ پاکستان میں شامل ہوا تاکہ بیرونی طاقتیں اس پر قبضہ کر لیں۔ معروف روسی شہنشاہ پیڑ دی گریٹ کا خواب تھا کہ روس، وسطی ایشیاء ،افغانستان سے گزرتا ہوا بلوچستان پہ قبضہ کرے تاکہ بحرہند کے گرم پانی تک اسکی رسائی ہوسکے۔ پیٹردی گریٹ اپنی زندگی میں تو یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نہ دیکھ سکالیکن1979میں سوویت یونین نے اپنی فوجوں کے ذریعہ افغانستان پہ چڑھائی کردی تاکہ بلوچستان پہ قبضہ کرکے بحرہند کے گرم پانیوں تک پہنچ کر پیٹردی گریٹ کے خواب کو حقیقت کاروپ دے۔ امریکہ، یورپ اور افریقہ کو تیل کی سپلائی یہاں سے گزرتی ہے اور بلوچستان کے ساحلوں سے اس تیل کو روکا جاسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت امریکہ کا حلیف بن کر سوویت فوجوں کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔ امریکی خفیہ ایجنسئی ’’سی آئی اے‘‘ نے دنیا بھر سے مسلمانوں کو اکھٹا کرکے جہاد پہ اکسایا ۔جہاد کی ترغیب دینے کے علاوہ ان مسلمان رضا کاروں کو گوریلا جنگ کی ترغیب دی گئی یہ ٹریننگ سینٹر پاکستان میں افغان سرحد کے قریب واقع تھے۔ القاعدہ کا قیام وجودہ میں آیا۔ جذبہ جہاد سے سرشار ان مجاہدین نے سوویت یونین جیسی عظیم فوج کو شکست دی جسکے نتیجے میں سوویت یونین پاش پاش ہوگیا ۔روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں مختلف ٹکڑوں میں ٹوٹ کر الگ ممالک بن گئے۔ امر یکہ نے اپنے پرانے حریف سوویت یونین کوشکست دینے کے بعد اپنی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لیا۔ پاکستان کو امریکہ کا ساتھ دینے کاپر بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سوویت یونین نے اسی وقت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی خاطر بم دھما کے کراکے تباہی مچائی اور بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرکے بغاوت پہ اکسانے کی سازش پہ آمادہ کرنے کی کوششیں جاری ہوگئیں۔ امریکہ تو خطے سے اپنا مقصد پورا کرنے کے بعد بوریا بستر گول کرکے روانہ ہوگیا۔ کچھ مسلمان مجاہدین اپنے اپنے وطن کولوٹے لیکن القاعدہ جسکا مقصد جہاد کی ترغیب دینا تھا اسامہ بن لادن کی قیادت میں نئے ہدف کی تلاش میں سرگرداں ہوگئی۔ امریکہ نے بھاری تعداد میں اسلحہ اور ڈالر افغانستان میں چھوڑ دیا تھا۔ جس کی وجہ سے وہاں خانہ جنگی شروع ہوگئی جسکا اثر پاکستان پہ بھی پڑا اور دہشت گردی کا سلسلہ یہاں بھی شروع ہوگیا۔
9/11کے حملوں کے بعد امریکی فوجوں نے ایک مرتبہ پھر افغانستان کا رخ کیا۔ اب انہیں اسامہ بن لادن کی تلاش تھی جنہوں نے9/11 حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی ۔پاکستان نادانستہ ایک مرتبہ پھر امریکہ کا حلیف بن گیا جسکی وہ بھاری قیمت اب بھی چکارہا ہے۔طالبان اور القاعدہ کے اراکین نے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں تلاش کرلیں۔لیکن پاکستان کو امریکہ کا حلیف گردان کر یہاں بھی فوجی اور سویلین تنصیبات کودہشت گرد حملوں کانشانہ بنایا جانے لگا۔ بلوچستان ایک مرتبہ پھر دنیا کے ریڈار پہ نمایاں ہوگیا۔ یہاں شمسی اور جیکب آباد کے ہوائی اڈے امریکی تحویل میں دئے گئے جہاں سے ڈرون حملے کرائے جاتے۔26 نومبر2011کو افغان سرحد کے قریب پاکستانی فوجی چوکی سلالہ پہ امریکی حملے کے بعد پاکستان نے شمسی اور جیکب آباد کے ہوائی اڈوں سے امریکہ کونکل جانے کا حکم دیا۔ اس اثناء میں امریکہ نے بھارت کو بلوچستان میں شورش بپا کر نے کی ترغیب دی۔ اس کا دوہرا مقصد تھا۔ اول توکہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے دوسرے حکومت چین نے اقتصادی راہداری کی بنیاد ڈالی تھی، وہ گوادر سے ہوکر بلوچستان کے بیشتر حصوں سے گزرتی ہوئی چین کے شہر کا شغر پہنچتی ہے کو سبوتاژ کیا جائے۔ بھارت کو کسی ترغیب کی ضرورت نہ تھی وہ پہلے ہی چین اور پاکستان دونوں سے خائف ہے لہذا اس نے موقع غنیمت جانا اور وہ اس گھنائونے کھیل میں بخوشی شامل ہوگیا۔ متعدد بلوچوں کو یہ باور کر ایا گیا کہ حکومت پاکستان نے شروع سے ان کے حقوق سلب کئے، انکے معدنی وسائل پہ قبضہ کیا، کوئی ترقی نہ ہونے دی اور غیر بلوچوں کولاکر بسایا کہ وہ بلوچوں پہ حکومت کریں ۔کچھ بلوچ رہنمائوں نے جلاوطنی اختیار کی اور یورپ، افغانستان یا بھارت میں بیٹھ کرپاکستان کے خلاف دہشت گردحملے، مزاحمتی تحریکیں اور پراپگینڈ امہم کا آغاز کیا۔2015 ء جنوری میں بھارتی قومی دن وزیراعظم نریندرمودی نے لال قلعہ کی فصیل پہ کھڑے ہوکر بلوچستان میں بغاوت کی پشت پناہی کا اعلان کیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدہی بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘ کا سینئرا ہلکار بلوچستان سے گرفتار ہوا بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر کلھبوشن یادو اور ’’رائ‘‘ کے مہا جاسوس نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بلوچستان میں سازش کا جال پھیلا یا تاکہ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کو بھی سبوتاژ کیا جاسکے اور پاکستان کو غیر مستحکم۔بہت سے بلوچ رہنما جو جلاوطنی میں ہیں یا ملک میںموجودہ ہیںنے بھارت کی سازشوں پہ اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا اور انہیں اس حقیقت سے آگاہی ہوگئی کہ بھارت انہیں استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کر رہا ہے اور انکی سر زمین کا بیڑا غرق۔ ڈاکٹر جمعہ خان مری جیسے خوددار بلوچ رہنما نے جو بلوچ نیشنلسٹ ہونے کے علاوہ دانشور بھی ہیں نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ علیحدگی پسند بلوچوں سے مثلا برہمداغ بگٹی، ہر بیار مری اور مہران مری سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں کیونکہ یہ شخصیات بھارتی خفیہ ایجنسی ’’رائ‘‘ کے مکمل کنٹرول میں ہیں اور کٹھ پتلی کی مانند بھارتی اشاروں پہ ناچتے ہیں۔ ڈاکٹر جمعہ نے حال ہی میں امریکن فرنیڈ س آف بلوچستان کے چئیرمین احمر مستی خان کے انکشافات کی جانب اشارہ کیا کہ بلوچستان میں مبینہ بغاوت کی ذمہ دار ’’رائ‘‘ ہے جو2001ء سے بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ’’رائ‘‘ اپنے پٹھوئوں سے ناخوش ہے کہ انہوں نے بلوچستان میں خاطر خواہ کامیاب سازش انجام نہ دی اور وہ اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں حالانکہ ’’رائ‘‘ برسوں سے انہیں لاکھوں ڈالر فراہم کررہی ہے اسکے برعکس وہ اب بلوچ نوجوانوں کو اپنی گھنائونی سازش کو فروغ دینے کے لئے ریکروٹ کررہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے یہ خوش آئند بات ہے کہ ’’رائ‘‘ کو بلوچوں میں کوئی منظور پشتین نہ حاصل ہوسکا۔ بلوچ نوجوانوں کو بھی آگاہی ہے کہ ان کے نام نہاد رہنما خود تویورپ میں مزلے لوٹ رہے ہیں لیکن ان کو قربانی کا بکرا بنارہے ہیں۔ لہذا اب ایسے پوسٹر نظر آرہے ہیںکہ ’’رائ‘‘ کے ایجنٹ اپنے ہتھیار پھینکو اور ڈاکڑ جمعہ خان مری کا ساتھ دو تاکہ بلوچستان بھارتی سازشی ٹولے کے چنگل سے آزاد ہو۔ناراض بلوچوں کی واپسی سے بلوچستان کو علیحد ہ کرنے کی سازش بے نقاب بھی ہوگئی اور ناکام بھی ہوگئی۔