بھارت کے شہر اجمیر میں حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ پر نصب دیگ کے بارے میں سنا تو پہلے بھی تھا لیکن جب وہاں حاضری کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں ایک نہیں دو دیگیں ہیں۔ ایک دیگ اکبر بادشاہ کے نام سے اور دوسری دیگ جہانگیر بادشاہ کے نام سے منسوب ہے۔ اکبر کی دیگ میں ایک سو بیس من (چار ہزار آٹھ سو کلو) اور جہانگیر کی دیگ میں ساٹھ من تک غذا پکائی جا سکتی ہے۔ یہ دونوں دیگیں درگاہ کے صحن میں خاصی اونچائی پر لگائی گئی ہیں۔ زائرین سیڑھیاں چڑھ کر ان دیگوں میں نذرانے بھی ڈالتے ہیں۔
ہر سال عرس کے موقع پر ایک اندازے کے مطابق ان دیگوں میں روزانہ لاکھوں روپے کے نذرانے ڈالے جاتے ہیں۔ درگاہ کے سجادہ نشین نے بتایا کہ صرف عرس کے چھ دنوں میں ان دیگوں سے نذرانے جمع کرنے کا ٹھیکہ کروڑ روپے سے زائد میں دیا جاتا ہے۔ میں نے خود دیکھا کہ لوگوں نے ان دیگوں میں اناج، نقد رقم اور سونے چاندی کے زیورات، منت پوری ہونی کی علامت کے طور پر ڈالے ہوئے تھے۔ درگاہ کی انتظامی کمیٹی کے رکن بتا رہے تھے کہ عام طور پر تو لوگ منت پوری ہونے پر چھوٹی دیگیں چڑھاتے ہیں لیکن بعض مخیر حضرات ان بڑی دیگوں میں بھی اکثر کھانا پکوا کر تقسیم کرتے ہیں۔ ان بڑی دیگوں میں کھانا پکانا ہر باورچی کے بس کا کام نہیں اکبر بادشاہ نے ایک خاص باورچی اس کام کے لیے متعین کیا تھا۔ اسی باورچی کا خاندان اب تک نسل در نسل یہ کام کر رہا ہے۔ اکبر بادشاہ جب بھی کسی بڑی مہم کے لیے روانہ ہوتا تو یہاںآ کر دعا کرتا اور منت مانگتا۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ گجرات اور چنیوٹ کی فتح کے لیے بھی اکبر نے یہاں خصوصی دعا کی اور فتح کے بعد یہاں منت بھی پوری کی۔ اولاد نرینہ کے لیے بھی اکبر نے جب یہاں دعا کی تو اسے خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ فتح پور سکری میں حضرت خواجہ سلیم چشتیؒ کے حضور حاضر ہو کر دعا کرائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اکبر بادشاہ نے اس پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے شہزادہ سلیم (جہانگیر بادشاہ) کی شکل میں بیٹا عطا کیا۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کو سلطان ہند کا لقب بھی حاصل ہے۔ علم تکوین (روحانی ایڈمنسٹریشن) والوں کا کہنا ہے کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ متحدہ ہندو ستان کے معاملات اور روحانی امور کے انچارج تصور کئے جاتے ہیں۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کا تعلق آل نبیؐ سے ہے۔ آپ حضرت زین العابدینؒ کی اولاد سے ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد حضرت زین العابدین کی اولاد ہجرت کر کے ایران آ گئی۔ خواجہ صاحب کی پیدائش ایران میں ہوئی، حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے تبلیغ اسلام کے لیے ایران سے ہندوستان کا سفر کیا آپ نے کچھ عرصہ ملتان میں بھی قیام کیا پھر آپ لاہور آ گئے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر آپ نے چلہ کشی کی۔ (حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے چلہ لاہور کی جگہ اب بھی داتا صاحبؒ کے مزار کے ساتھ موجود ہے) اس موقع پر آپ نے داتا صاحبؒ کے بارے میں تاریخی شعر کہا۔ جو زبان زد عام ہے۔
گنج بخش فیض عالم … مظہر نور خدا
ناقصاں پیر کامل … کامل را رہنما
حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے مزار پر مسلمانوں کے علاوہ ہندو، عیسائی، پارسی سبھی منتیں مانگنے آتے ہیں۔ بھارت کے سبھی صدر اور وزرائے اعظموں نے بھی اس درگاہ پر حاضری دی ہے۔ مرحوم صدر جنرل محمد ضیا الحق اور صدر مشرف بھی اجمیر شریف حاضری دے چکے ہیں۔ اجمیر شریف حاضری کو بھی "بلاوے" کا نام دیا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی کئی بار اجمیر شریف حاضری دے چکی ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے آصف زرداری کی رہائی کے لیے اجمیر شریف جا کر منت ما نی تھی۔ جب آصف زرداری رہا ہوئے تو وہ انہیں لے کر حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے حضور حاضر بھی ہوئیں تھیں۔
سلطان ہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ روحانی اعتبار سے فیوض و انوار کا مرقعہ ہے لیکن اس کے گرد و نواح کا ماحول پراگندہ ہو چکا ہے۔ زائرین کے لیے سہولتوں کی خاصی کمی ہے۔ حکومت ہند یہاں کے انتظام و انصرام کی طرف اتنی توجہ نہیں دے رہی جتنی کہ ضرورت ہے۔ صفائی کا معیار اور زائرین کے لیے صاف ستھری رہائش کا انتظام بہتر نہیں ہے۔ درگاہ کے قرب و جوار میں سبھی عمارتیں اور دکانیں مسلمانوں کی ہیں صرف اجمیر شریف میں ساڑھے چار سو مساجد ہیں۔ مقامی لوگ بتا رہے تھے کہ آہستہ آہستہ بھارت کے ہندو مسلمانوں کی املاک خرید رہے ہیں اور اجمیر شریف میں ہندو مسلمانوں پر حاوی ہو گئے ہیں اس شہر کے کلچر پر بھی ہندو مت کو برتری حاصل ہو گئی ہے۔ درگاہ سے چند سو گز کے فاصلے پر ہندو چماروں کے گھر ہیں۔ جنہوں نے گھروں میں "پالتو سور" پال رکھے ہیںاور جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر ہیں۔
اجمیر شہر کی بنیاد راجہ اجے پال چوہان نے گیارہویں صدی میں رکھی۔ پرتھوی راج چوہان بھی اسی شہر میں پیدا ہوا۔ پرتھوی راج کی موت بھی سلطان محمود غوری کی فوج سے لڑتے ہوئے اسی شہر میں ہوئی۔ گیارہویں صدی میں یہ شہر سلطان محمود غوری اور تیرہویں صدی میں تیمور کے قبضے میں رہا۔ اجمیر کا نام ملحقہ پہاڑی "اجے میرو" کے نام سے موسوم ہے۔ اجے میرو کا مطلب "نا قابل تسخیر" ہے۔
اجمیر شریف حاضری اور ایک سو بیس من کی دیگ
Jun 24, 2018