بنی گالہ کا گھیرائو بدستور جاری، ٹکٹوں کی تقسیم میں نظرانداز ہونے والے، کچھ لے کے جانے کا عزم کئے ہوئے ہیں وہ اس پر بھی قناعت سکتے ہیں کہ انہیں ٹکٹ دیں نہ دیں، ان کے بجائے جن کو دیا ان سے واپس لیں۔ اُدھر خان اعظم ان کی کچھ سننے کو تیار نہیں، کسی نے کان میں کہہ دیا کہ، آپ کے فیصلے اصولی ہیں یہ لوگ بلیک میل کر رہے ہیں۔ خان نے یہ بات مان لی، کانوں کے کچے ہونے کے حوالے سے بھی ان کی شہرت چار دانگ عالم ہے۔35 پنکچر، اُردو بازار میں بیلٹ پیپرز کی چھپوائی کے دعوے امپائر کی انگلی ان کے کانوں کے کچے ہونے کی دلیل ہے۔ کہا جاتا ہے ریحام نے ایک دن کہہ دیا خان صاحب آپ کا کان کاٹ کر شیرو لے گیا، خان شیرو کے پیچھے بھاگے، تھوڑی دیر بعد آکر بتایا اس کے منہ میں تو کان نہیں ہے۔ ریحام نے کہا وہ ادھر پھینک گیا تھا، اس کے ساتھ ہی وہ مٹھی خان کی کن پٹی کے قریب لے جاتے ہوئے بولی ’’یہ لیں میں نے کان اپنی جگہ پر لگا دیا‘‘۔
بنی گالہ کا سارا احتجاج ایک طرف زعیم قادری کا نعرہ دوسری طرف جو بنی گالہ کے گھیرائو پر بھاری پڑ گیا۔ ایک عمران ہی نہیں ہر پارٹی کا لیڈر کانوں کا کچا ہے۔ ان سب کوکچکانِ اعظم کہا جا سکتا ہے۔ کسی نے لیگی قیادت کو کہہ دیا کہ زعیم جیت نہیں سکتا تو اس کا ٹکٹ دبا لیا اور پھر دنیا نے انہیں آپے سے باہر ہوتے اور اندر کا اُبال ظاہر کرتے دیکھا۔ حمزہ کے جوتے پالش نہیں کر سکتا۔ لاہور تمہاری اور تمہارے باپ کی جاگیر نہیں‘‘۔ لیگی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں، یہ اندازِ گفتگو کیا ہے مگر کچھ اسے سخن رندانہ اور جرات مردانہ طرز بے با کانہ سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ زعیم جیسا اگر پارٹی چھوڑ سکتا ہے کوئی اس راہ پر چل نکل سکتا ہے مگر سوال یہ بھی ہے اگر بدستور لیگی حکومت ہی ہوتی تو زعیم اسی لب و لہجے میں یہ سب کچھ کہہ دیتے؟۔ اس کا جواب ہاں میں ہو سکتا ہے کیونکہ پارٹی بزر جمہروں کے بقول فوج اس پارٹی کو کمزور کرنے پر تلی ہوئی۔
رانا ثناء اللہ خان کہتے ہیں کہ ٹکٹ ایک جبکہ ایک ہی لیول کے امیدوار تین تین، ٹکٹ تین حصوں میں تو نہیں بٹ سکتا۔ پارٹی کے لئے خدمات اور پارٹی قیادت کی اطاعت میں قادری رانا ثناء اللہ سے دو قدم آگے ہی ہونگے۔ رانا ثناء اور ان جیسے لوگوں کا ٹکٹ تین میں تقسیم ہونے کی بات نہیں ہوتی۔ زعیم قادری کا رویہ اور انداز گفتگو مناسب نہیں مگر یہ پارٹی کیلئے بڑا دھچکا ہے ایسے دو چار دھچکے اور لگے تو پارٹی گرتی ہوئی دیوار ثابت ہو سکتی ہے۔ بظاہر ان کو منانے کیلئے ذاتی دوست اور کاروبار سیاست میں دیرینہ ساتھی رانا مشہود ، سعد رفیق گئے۔ اندر جا کے بعید نہیں کہاہو،’’ تو چل ہم بھی آئے‘‘۔
ٹکٹوں کی تقسیم پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن میں ’’سیاپا‘‘ جاری ہے۔ ناانصافی کے نام پر طوفان اٹھایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پی پی پی ، ق لیگ اور مجلس عمل لاٹری کے ٹکٹوں کی طرح اپنے ٹکٹوں کی مشہوری کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر چل رہا ہے ، بلاول ، چودھری برادران اورمولانا پرانے کارکنوں کے گھروں میں ٹکٹ پھینک کر فرار ہو گئے۔
زعیم قادری کے ساتھ ہی شیخوپورہ کے ضلعی لیگی صدر عارف خان سندھیلہ کا تذکرہ بھی ہو رہا ہے۔ ان کو تمام تر خدمات کے باوجود ٹکٹ سے محروم رکھا گیا۔ وہ گرم و سرد کے ساتھی ہیں، پارٹی قیادت کے ساتھ رہے، ماریں کھائیں، جیلیں کاٹیں اور بلاشبہ میاں نوازشریف کی ستائش کے لئے کروڑوں کے اشتہارات دیئے۔ ان سے بڑا الیکٹ ایبل بھی کوئی نہیں۔ گزشتہ الیکشن میں وہ واحد امیدوار تھے جو تمام کے تمام 159پولنگ سٹیشنوں سے جیتے۔ وہ کہتے ہیں ان کے بجائے ٹکٹ ان کے سیاسی حریف کے ایما پر ایک کونسلر کو دیدیا گیا۔ یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ یہ ٹکٹ 5کروڑ میں فروخت ہوا۔ پانچ کروڑ کس نے لئے پارٹی قیادت انکوائری کرائے۔ عارف سندھیلہ پارٹی اور قیادت سے وفاداری کا استعارہ ہے۔ اس کا کردار شاہ سے زیادہ شاہ سے وفادار کا رہا ہے۔ ایسے کارکن کسی بھی پارٹی کی جان اور مان ہوا کرتے ہیں۔ ان کو نظرانداز اور بے وقعت کرکے مرغانِ بادنما پر اعتماد کرنے سے وہی ہوگا جیسا میاں نوازشریف نے کہا تھا پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ اب ٹکٹ تقسیم ہو چکے ،سندھیلہ کے معاملے میں حلقہ اوپن کیا جا سکتا ہے۔ آمریت میں کلثوم کی کرین کے ذریعے گاڑی اٹھا لی گئی تو سندھیلہ زنحیر کے ساتھ جھول گئے اس دوران ہاتھ کی انگلی کٹ گئی تو باقاعدہ’’ شہیدوں ‘‘میں شامل ہو گئے۔
آج کلثوم نواز صحت کے مشکل ترین مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ اخلاقیات کا تقاضہ ہے کہ ان کے لواحقین جو کہہ رہے ہیں اسے سچ مانتے ہوئے محترمہ کی صحت یابی کی دعا کی جائے مگر کچھ لوگ سفاکانہ سوچ کا اظہار کرتے ہوئے، کلثوم نواز کی بیماری کو ڈرامہ قرار دے رہے ہیں۔
بہرحال انتخابات میں قوم کسی بھی پارٹی کو واضح مینڈیٹ دے تو بہتر ہے۔ (ن) لیگ کو لانا ہے تو بڑی اکثریت کے ساتھ لایا جائے تاکہ اسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں کوئی مشکل نہ رہے۔ پی ٹی آئی کو لانا ہے تو اسے بھی واضح اکثریت دی جائے تاکہ وہ بھی اپنے پروگرام پر عمل پیرا ہو سکے ۔ بھان متی کا کنبہ جوڑا گیاتو جوڈیشل گورننس کا تصور مزید قوی ہوگا۔ سپریم کورٹ کے ایکٹوازم کی عومی مفاد میں چل سو چل ہے۔ اس کے فیصلوں اور کارکردگی پردشنام کرنیوالے کارڈ پر ٹیکس ختم کرنے کے حکم کو مسترد کردیں ، کارڈ خریدتے وقت رعایت لینے سے انکار کردیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ ظلم ہے اس پر بھی بجا نوٹس لیا گیا ہے۔ پٹرولیم پر 40روپے ٹیکس کا اعتراف تو حکمران خود کر چکے ہیں۔ بجلی بلوں پر بھی ناروا ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ بجلی بلوں اور پٹرولیم پر ٹیکس ختم کر دے تو مہنگائی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے آسمان سے زمین پر آ گریں گے۔
سپریم کورٹ کا قوم پر یہ بھی احسان سمجھئے کہ آئندہ ان کی تقدیر کے مالک بننے والے سیاستدانوں کو ایک حلف نامے کے ذریعے حقیقی پبلک فگر بنا دیا۔ بغیر کسی دبائو کے ہمارے سیاستدان رضاکارانہ طور پر پرائیویٹ لائف سے بھی پردہ اٹھا رہے ہیں، خفیہ شادیوں کا اقرار کر رہے ہیں۔ اربوں کے اثاثے سامنے لا رہے ہیں۔ اس بیانہ میں ایسے ایسے لطیفے بھی ہیں۔ کراچی کے بلاول ہائوس کی قیمت 30 لاکھ بتائی گئی ہے۔ شہباز شریف کے مری میں ڈیڑھ کنال کے بنگلے کی قیمت 40 ہزار اور ساتھ والے گھر کی قیمت 27 ہزار ہے۔ شہروں کے پوش علاقوں میں اتنے سستے گھر دل کرتا ہے وہیں جا بسیں۔
کچکانِ اعظم اور بے وقعت سندھیلے
Jun 24, 2018