عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ ”ن“ پر بہت بھاری وقت آن پڑا ہے۔ خود مسلم لیگ ”ن“ کے قائد میاں محمد نوازشریف نے لندن میں حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ کبھی کبھی انسان پر بہت سی مشکلات اکھٹی آ جاتی ہیں اور وہ بیگم کی علالت اور پاکستان میں عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے کے حوالے سے اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ پارٹی پر جن وجوہات کی بناءپر مشکل وقت آیا ہے وہ پوشیدہ نہیں ایک بظاہر مضبوط پارٹی کے بارے میں اب خود پارٹی کی مرکزی قیادت سے تعلق رکھنے والے بعض چہرے گھبراہٹ کا شکار ہیں اور اس گھبراہٹ میں بے یقینی کا شکار ہوکر وہ فیصلے کر رہے ہیں جن کی ان سے توقع نہیں تھی۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے پہلے دبی زبان میں راستے الگ کرنے کا قسطوں میں اظہار کیا پھر کھل کر سامنے آ گئے۔
اس سے پہلے ظفر علی شاہ نے اپنے آپ کو فاصلے پر کر دیا تھا۔ جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر جب چندا ارکان اسمبلی نے ن لیگ کو خدا حافظ کیا تھا تو میاں نوازشریف نے اعتماد کے ساتھ کہا تھاکہ وہ ہم میں سے تھے ہی نہیں۔
لاہور سے باہر کے بھی بعض واقف ہائے رازدرون خانہ نے پارٹی کی طرف پیٹھ کر لی۔ ان حالات میں شریف خاندان سے باہر پارٹی کے ایک مرکزی راہنما تھے جو ایک طرف کو بیٹھتی دیوار کے تھامنے اور اپنے قد پر کھڑا کرنے کے لئے خلوص کے ساتھ شریف فیملی کا ساتھ دیتے اور وہ تھے ریلوے کی وزارت کے حوالے سے پارٹی کے لئے اچھا نام کمانے والے اور انتھک سیاسی ورکر خواجہ سعد رفیق انہوں نے چودھری نثار اور پھر کوئٹہ میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے کی بنیاد بننے والے دوستوں سمیت بہت سے احباب کو منانے کے لئے بہت جتن کے لئے یہ الگ بات کہ ان کی کوششیں ہر محاذ پر کامیاب نہیں ہوئیں لیکن ان کوششوں کے نتیجے میں دیوار کی بہت سی اینٹیں دیوار کاحصہ بنی رہیں۔ میاں صاحبان اپنی مجبوریوں کے باعث لندن میں تھے تو لاہور میں مسلم لیگ ن کے سابق ترجمان پنجاب حکومت اور سابق صوبائی وزیر زعیم قادری نے ایک پریس کانفرنس میں دھماکہ کر دیا۔پریس کانفرنس کے دوران وہ اتنے غصے میں تھے کہ الفاظ چناﺅ میں بھی سیاسی مصلتحت سے کام نہ لے سکے۔ یہ پریس کانفرنس معمولی نہیں تھی یہاں بھی خواجہ سعد رفیق پارٹی کے ایک دوسرے ساتھی رانا مشہود کے ساتھ زعیم قادری کو منانے اور غلط فہمیاں دور کرنے میں مصروف رہے۔ اپنے حلقے کو وقت دینے اور ذاتی عدالتی اور خاندانی مسائل کو ایک طرف رکھ کر پارٹی کو شکست وریخت سے بچانے کے لئے خواجہ کی کوششیں وفاداری بشرط استواری کے ذیل میں آتی ہیں۔ لاہور کا یہ سیاسی دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو ہنگامی بنیادوں پر لندن سے لاہور آنا پڑا۔
اگرچہ میدان میں موجود بڑے سیاسی حریفوں تحریک انصاف پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کی صفوں میں بھی اضطراب کی کیفیت ہے لیکن مسلم لیگ ”ن“ کا معاملہ مختلف ہے۔ تمام تر مقدمات اور دباﺅ کے باوجود ابھی تک پارٹی پارٹی میں ایسی دراڑیں نہیں پڑی تھیں کہ پارٹی کا سیاسی مستقبل زیر بحث آ جائے لیکن لاہور میں سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ شمیم حسین قادری کے بھتیجے، قانون و انصاف سے وابستہ گھرانوں کے چشم و چراغ اور ذاتی طور پر مسلم ”ن“ سے وابستگی اور وفاداری کی بھرپور تاریخ رکھنے والے زعیم حسین قادری کا راستہ الگ کرنے کا انداز مسلم لیگ ”ن“ کے لئے یقیناً بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
مسلم لیگ ”ن“ کی حکومت جب ڈاکٹر آصف اشرف جلالی اور پیر آف سیال شریف کی طرف سے ختم نبوت کے مسئلہ پر بہت دباﺅمیں تھی تو سیال شریف ضلع سرگودھا میں جا کر پیرصاحب کو حکومت کے موقف سے آگاہ کرنے اور صورتحال کو بہتر بنانے کی بنیادی ذمہ داری زعیم قادری کو سونپی گئی اور وہ حکومت کے ایماءپر جو دعوے کر کے آئے وہ بعد میں پورے نہ ہو سکے تھے۔
ریحام کی کتاب کے ایشو پر بھی زعیم قادری نے کتاب کی اشاعت اور سیاسی طور پر استعمال ہونے کی مختلف ٹی وی چینلز پر مخالفت کی تھی۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لاہور میں پارٹی کو مضبوط دیوار میں یہ دراڑ معمول نہیں پھر بھی میاں شہبازشریف کو سید بادشاہ سے رابطوں کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے اور خواجہ سعد رفیق جو پارٹی کی طرف سے مذاکرات اور ناراض احباب کو منانے کے ماہر ہیں اپنا کردارم¶ثر انداز میں ادا کر سکتے ہیں۔
زعیم قادری ، سعد رفیق اور مسلم لیگ ن
Jun 24, 2018